افغانستان: قندھار کی امام بارگاہ میں دھماکا، 41 افراد جاں بحق

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2021
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دھماکے کی پرزورمذمت کی—فوٹو: اے ایف پی
طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دھماکے کی پرزورمذمت کی—فوٹو: اے ایف پی
دھماکے کے بعد جائے وقوع کا ایک منظر—تصویر: ٹوئٹر
دھماکے کے بعد جائے وقوع کا ایک منظر—تصویر: ٹوئٹر

افغانستان کے شہر قندھار کی ایک امام بارگاہ میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران بم دھماکے کے نتیجے میں 41 افراد جاں بحق اور 70 سے زائد زخمی ہوگئے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان عہدیداروں نے بتایا کہ شمالی افغانستان کے شہر قندھار میں نماز جمعہ کے دوران خود کش حملہ کیا گیا۔

طالبان کے ایک مقامی عہدیدار نے کہا کہ ہمیں ابتدائی طور پر موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق حملہ خود کش تھا، جس نے مسجد کے اندرخود کو اڑا دیا اور مزید تفتیش کی جارہی ہے۔

شہر کے مرکزی میر وائس ہسپتال کے ترجمان نے کہا کہ ’میروائس ہسپتال میں 41 لاشیں اور 74 زخمیوں کو لایا گیا‘۔

قندھار کے محکمہ صحت کے ڈائریکٹر حافظ عبداللہی عباس نے کہا کہ ‘ہسپتال سے آنے والی اطلاعات کے مطابق آج مسجد میں ہونے والےدھماکے میں 41 افراد جاں بحق اور 70 زخمی ہوگئے ہیں’۔

میروائس ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ہم بہت پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ‘بہت زیادہ لاشیں اور زخمیوں کو ہمارے ہسپتال لایا جا رہا ہے، اور خدشہ ہے کہ مزید بھی آئیں گے’۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں ہنگامی طور پر خون کی ضرورت ہے، ہم نے قندھار میں مقامی میڈیا کو بتایا ہے کہ لوگوں کو یہاں آکر خون عطیہ کرنے کے لیے کہیں’۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میںکہا کہ امارات اسلامی اس واقعے کی مذمت کرتی ہے اور اس کو بہت بڑا جرم تصور کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ذمہ داروں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ حملے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نےتسلیم نہیں کی ہے۔

ابتدائی طور پر دھماکے کی نوعیت معلوم نہیں ہوسکی لیکن یہ شمالی شہر قندوز کی امام بارگاہ میں خودکش بم دھماکے کے ٹھیک ایک ہفتے بعد ہوا جس کی ذمہ داری ’داعش‘ نے قبول کی تھی۔

— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: اے ایف پی

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان قاری سعید خوستی نے کہا کہ ’دھماکے سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان ہوا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ حکام، دھماکے کی تفصیلات اکٹھی کر رہے ہیں۔

ترجمان نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ ’ہمیں یہ بتاتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ قندھار شہر کے پہلے ضلع میں ایک امام بارگاہ میں دھماکا ہوا جس میں ہمارے متعدد ہم وطن جاں بحق و زخمی ہوئے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان کے صوبہ قندوز کی مسجد میں دھماکا، 55 افراد جاں بحق

انہوں نے کہا کہ ’اسلامی امارات کی خصوصی فورسز دھماکے کی نوعیت معلوم کرنے اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے جائے وقوع پر پہنچ گئی ہیں‘۔

سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز اور تصاویر میں بہت سے افراد کو امام بارگاہ کے فرش پر دیکھا جاسکتا ہے جو شدید زخمی ہیں۔

عینی شاہد نے بتایا کہ انہوں نے تین دھماکے سنے جن میں سے پہلا امام بارگاہ کے مرکزی دروازے، دوسرا جنوبی دروازے جبکہ تیسرا وضو خانے میں ہوا۔

صوبائی کونسل کے سابق رکن نعمت اللہ وفا نے کہا کہ دھماکا امام بارگاہ میں ہوا جس کے نتیجے میں بھاری جانی نقصان ہوا ہے، تاحال کسی تنظیم نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔

برطانوی ادارے ایکس ٹریس کا کہنا تھا کہ اگر داعش خراسان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تو قندھار میں داعش کا یہ پہلا حملہ ہوگا اور افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد چوتھا بڑا واقعہ ہے۔

ایکس ٹریس کے محقق عبدالسعید کا کہنا تھا کہ حملہ طالبان کے لیے ایک چیلنج ہے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ملک بھر میں ان کا قبضہ ہے، اگر طالبان قندھار کو داعش سے محفوظ نہیں بناسکتے تو پھر پورےملک کو کیسے محفوظ بنائیں گے۔

افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے ٹوئٹ میں کہا کہ ‘اقوام متحدہ مذہبی ادارے اور عبادت گزاروں پر حملے کے حالیہ واقعے کی مذمت کرتی ہے، ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانا چاہیے’۔

واضح رہے کہ طالبان کے افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے مسجد پر ہونے والا یہ چوتھا دھماکا ہے۔

قبل ازیں گزشتہ جمعہ کو افغانستان کے شمال مشرقی صوبے قندوز کی ایک مسجد میں نماز کی ادائیگی کے دوران دھماکے کے نتیجے میں 55 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں: کابل میں مسجد کے باہر دھماکا، دو افراد جاں بحق

اس دھماکے میں بھی اہلِ تشیع برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول کی تھی۔

داعش کی جانب سے افغانستان میں طالبان کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے کئی حملے کیے جاچکے ہیں اور ان کے علاوہ افغانستان میں دیگر برادریوں اور مکتب فکر کے افراد کو بھی نشانہ بنا یا گیا ہے۔

اس سے قبل 3 اکتوبر کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں مسجد کے باہر دھماکے کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

بم دھماکا کابل کی عیدگاہ مسجد کے دروازے کے قریب ہوا تھا جہاں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کا تعزیتی اجلاس ہو رہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: داعش کا تعاقب کیا جارہا ہے، ذبیح اللہ مجاہد

یہاں یہ بات مدِ نظر رہے کہ طالبان نے 15اگست کو کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا جس کے بعد سے انہیں اندرونی طور پر داعش کے خطرے کا سامنا ہے۔

تاہم حال ہی میں ایک بیان میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ امارت اسلامیہ ان کا تعاقب کررہی ہے اور ہماری افواج داعش کی جڑیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ ہفتے میں ہم نے داعش سے تعلق رکھنے والے کئی لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کے کئی محفوظ ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے جبکہ ان کے کئی حملوں کو بے اثر کر دیا ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Oct 16, 2021 12:00pm
اہل تشیع مسلمانوں میں بھی نماز جمعہ، جامع مسجد میں ہی ہوتی ہے۔ امام بارگاہ، نام سے ہی ظاہر ہے کہ امام حسین علیہ السلام و دیگر اہل بیت رسول علیہم السلام کی سیرت و حالات زندگی سے متعلق مجالس کے لیئے مختص ہوتی ہے۔