ترک صدر کی 10 مغربی سفرا کو بے دخل کرنے کی دھمکی

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2021
رجب طیب اردوان نے صحافیوں کو بتایا کہ میں نے وزارت خارجہ کو بتایا ہے کہ ہم ملک میں ان کی مزید میزبانی نہیں کر سکتی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
رجب طیب اردوان نے صحافیوں کو بتایا کہ میں نے وزارت خارجہ کو بتایا ہے کہ ہم ملک میں ان کی مزید میزبانی نہیں کر سکتی ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

ترک صدر رجب طیب اردوان نے زیر حراست سماجی رہنما کی حمایت میں مشترکہ بیان جاری کرنے کے بعد امریکا، جرمنی اور دیگر 8 مغربی ممالک کے سفرا کو ملک سے بے دخل کرنے کی دھمکی دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پیرس میں پیدا ہونے والے 64 سالہ انسان دوست اور سماجی رہنما عثمان کافالا 2017 سے جرم ثابت ہوئے بغیر قید میں ہیں ناقدین کے مطابق یہ اردوان کی بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی علامت ہے۔

10 سفرا کی جانب سے پیر کو غیر معمولی مشترکہ بیان جاری کیا گیا جو انہوں نے بڑے پیمانے پر اپنے ترک سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر پھیلایا۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ عثمان کافالا کی مسلسل حراست ترکی پر ’غلط اثرات مرتب کر رہی ہے‘۔

مزید پڑھیں: ترکی میں ناکام بغاوت: معطل 500 ججز، پراسیکیوٹرز کا یورپی عدالت سے رجوع

رجب طیب اردوان نے صحافیوں کو بتایا کہ ‘میں نے وزارت خارجہ کو بتایا ہے کہ ہم ملک میں ان کی مزید میزبانی نہیں کر سکتے‘۔

عثمان کافالا پر 2013 میں حکومت مخالف احتجاج اور 2016 میں ناکام فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔

مشترکہ بیان میں امریکا، جرمنی، کینیڈا، ڈنمارک، فن لینڈ، فرانس، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، ناروے اور سوئڈن نے کافالا کیس کے جلد اور انصاف پر مبنی حل کا مطالبہ کیا تھا۔

ان ممالک کے سفرا کو منگل کو ترک وزارت خارجہ طلب کیا گیا تھا۔

افریقہ کے دورے سے واپسی پر رجب طیب اردوان ترک رپورٹرز سے گفتگو کے دوران آگ بگولہ دکھائی دیے۔

مزید پڑھیں: ترکی: بغاوت میں ملوث 27 پائلٹس کو عمر قید

ترکی کے نجی نشریاتی ادارے ’این ٹی وی‘ کے مطابق ترک صدر نے کہا کہ ’کیا یہ آپ کا کام ہے کہ آپ ترکی کو سبق سیکھائیں؟ آپ کون ہیں؟‘

رجب طیب اردوان کے اس بیان کے بعد ترکی کے مغرب سے نئے تنازع کی لہر کے خدشات کے باعث ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی قدر میں تاریخی کمی ریکارڈ کی گئی۔

عثمان کافالا نے گزشتہ ہفتے جیل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ رجب طیب اردوان اپنی دو دہائیوں کی حکمرانی کے خلاف مقامی اپوزیشن کو غیر ملکی سازش کا الزام دینے کے لیے انہیں مہرا بنارہے ہیں۔

عثمان کافالا نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’میرے خیال میں مسلسل حراست کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومت اس افسانے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے کہ 2013 میں کیے جانے والے غازی احتجاج، بین الاقوامی سازش کا حصہ تھے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’کیونکہ مجھ پر غیر ملکی طاقتوں کی اس مبینہ سازش کا حصہ ہونے کا الزام ہے، میری رہائی سے یہ افسانہ کمزور ہوجائے گا اور یہ حکومت نہیں چاہتی ہے‘۔

مزید پڑھیں: ترکی: حکومت مخالف مظاہرے

عثمان کافالا کو 2020 میں غازی احتجاج کے الزامات سے بری کردیا گیا تھا لیکن انہیں گھر پہنچنے سے قبل ہی دوبارہ 2016 کی فوجی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

خطے کے سرفہرست انسانی حقوق کے نگراں ’یورپ کونسل‘ کی جانب سے ترکی کو حتمی انتباہ جاری کیا گیا کہ عثمان کافالا کے تعطل کے شکار ٹرائل میں 2019 یورپی انسانی حقوق عدالت کے حکم کے مطابق عمل کیا جائے۔

اگر ترکی حکم کی تکمیل میں ناکام ہوجاتا ہے تو 30 نومبر سے 2 دسمبر تک اسٹراسبرگ میں ہونے والے اجلاس میں انقرہ کے خلاف تادیبی کارروائی کے لیے ووٹ دیا جاسکتا ہے۔

اس کارروائی کے نتیجے میں کونسل میں ترکی کا ووٹنگ کا حق اور رکنیت معطل ہوسکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں