این آئی سی وی ڈی کے 3 ملازمین، مریضوں سے رشوت لینے پر برطرف

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2021
تینوں عہدیداروں کو یکم اکتوبر کو ان کی بدعنوانیوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد معطل کردیا گیا تھا، عہدیدار - فائل فوٹو:این آئی سی وی ڈی ویب سائٹ
تینوں عہدیداروں کو یکم اکتوبر کو ان کی بدعنوانیوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد معطل کردیا گیا تھا، عہدیدار - فائل فوٹو:این آئی سی وی ڈی ویب سائٹ

کراچی: نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر ڈزیز (این آئی سی وی ڈی) نے اپنے 3 ملازمین کی سروسز کو بدعنوانی کے الزامات پر ختم کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کارروائی ایک مکمل انکوائری کے بعد کی گئی ہے جس میں آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (او پی ڈی) کے 3 ممبران کی جانب سے رشوت اور اختیارات کے غلط استعمال کو ثابت کیا گیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک عہدیدار نے بتایا کہ این آئی سی وی ڈی نے او پی ڈی میں رشوت لینے کی اطلاعات سامنے آنے کے بعد انکوائری شروع کی جس کی وجہ سے ابتدائی طور پر 3 ملازمین کو معطل کردیا گیا جن میں ایک خاتون اسٹاف ممبر بھی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’تینوں عہدیداروں کو یکم اکتوبر کو ان کی بدعنوانیوں کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد معطل کیا گیا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’طے شدہ قوانین کے تحت 8 اکتوبر کو معطل اہلکاروں کے خلاف شکایات کو دیکھنے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی گئی تھی، یہ سب طریقہ کار کی قانونی روح کو برقرار رکھنے اور قوانین میں بیان کردہ تمام ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کیا گیا تھا کیونکہ اگر ملزمان کو بغیر کسی تفتیش کے برطرف کر دیا جاتا تو وہ عدالت سے رجوع کر کے فیصلے کو چیلنج کر سکتے تھے‘۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ نے این آئی سی وی ڈی کو فراہم کردہ سرکاری فنڈنگ کا ریکارڈ طلب کرلیا

عہدیدار نے کہا کہ تمام ضابطے مکمل کرنے، طے شدہ قواعد پر پورا اترنے اور بدعنوانی میں ملوث ملزمان کو تلاش کرنے کے بعد تینوں مشتبہ افراد کو سروس سے برطرف کر دیا گیا۔

برطرف کیے گئے عہدیداروں میں این آئی سی وی ڈی کے او پی ڈی انچارج، ادارے کے یونٹ ریسیپشنسٹ اور ایک خاتون نرسنگ اسٹاف شامل ہیں جو مریضوں اور ان کے اہل خانہ سے رشوت لیتے پائے گئے۔

این آئی سی وی ڈی کے خلاف خبریں

ملک کی سب سے بڑی صحت کی سہولیات میں سے ایک سمجھے جانے والے اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سندھ حکومت کی جانب سے اس کی کامیابیوں میں سے ایک کے طور پر پیش کیے جانے والے این آئی سی وی ڈی گزشتہ چند سالوں سے تمام غلط کاموں کی وجہ سے سرخیوں میں رہا ہے۔

صرف چند ماہ قبل جعلی ادویات کی ایک کمیٹی اور دوا سازی کے نگران ادارے نے این آئی سی وی ڈی اور شہر کے ایک اور بڑے سرکاری ہسپتال سے چوری شدہ ادویات کی ایک بڑی مقدار ہول سیل ادویات کی منڈیوں میں چھاپوں کے سلسلے میں برآمد کی تھی۔

ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جعلی ادویات کے خلاف نیشنل ٹاسک فورس نے جون 2021 میں کچی گلی اور حسین آباد میں مختلف دکانوں اور گوداموں پر چھاپے مارے تھے اور این آئی سی وی ڈی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر رتھ فاؤ سول ہسپتال کراچی سے بھاری مقدار میں چوری کی گئی ادویات ضبط کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری ہسپتالوں کی ادویات، مارکیٹ میں فروخت کرنے سے متعلق متعدد انکوائریز کا آغاز

قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ادارے کے مالی معاملات میں جاری تحقیقات کے علاوہ این آئی سی وی ڈی فروری 2020 میں اس وقت زیر بحث آیا جب سندھ کے محتسب نے اپنے سیکیورٹی سربراہ اور ان کے دو ماتحتوں کو ان کی خواتین ساتھیوں کو ہراساں کرنے کا مجرم قرار پانے پر نوکری سے ہٹانے کا حکم دیا تھا۔

تاہم اس مرتبہ انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ این آئی سی وی ڈی نے اس طرح کی بدعنوانیوں کو روکنے کے لیے ایک نظام قائم کیا ہے اور ادارے میں بدعنوانی اور رشوت خوری کے خلاف صفر روا داری ہے۔

ایک افسر نے کہا کہ این آئی سی وی ڈی میں ایسے بدعنوان افراد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’چند ایسے ورکرز کی وجہ سے این آئی سی وی ڈی کی سروسز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، این آئی سی وی ڈی میں پورے پاکستان سے مریض آتے ہیں‘۔

تبصرے (0) بند ہیں