پاکستان پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل مبہم قرار

اپ ڈیٹ 24 اکتوبر 2021
خط میں کہا گیا کہ ڈیٹا لوکلائزیشن کے نتیجے میں ڈیٹا اسٹوریج کے اخراجات بڑھ جائیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی
خط میں کہا گیا کہ ڈیٹا لوکلائزیشن کے نتیجے میں ڈیٹا اسٹوریج کے اخراجات بڑھ جائیں گے—فائل فوٹو: اے ایف پی

ایشیا انٹرنیٹ کولیشن (اے آئی سی) نے پاکستان پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل 2021 کو کئی حوالوں سے مبہم قرار دیا اور اسے عالمی معیار کے مطابق بنانے کی تجاویز دی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزیر انفارمیشن اور ٹیلی کام سید امین الحق کو لکھے گئے خط میں ایشیا انٹرنیٹ کولیشن نے پاکستان پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل 2021 کے مسودے کو بہتر بنانے کے لیے سفارشات پیش کیں۔

خط میں اے آئی سی کے مینجنگ ڈائریکٹر جیف پین کا کہنا تھا کہ ہمیں تشویش ہے کہ مسودے کا بیرونی اطلاق ان دفعات پر مبنی ہے جو بہت وسیع اور مبہم ہیں، وہ ان غیر ملکی کمپنیوں کو بھی دائرہ کار میں لائیں گی جو پاکستان میں کام کرتی ہیں اور نہ ہی پاکستان میں جمع کردہ ڈیٹا پر کارروائی کرتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ڈیٹا پروٹیکشن بل پر تجاویز طلب کرلیں

ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خاص طور پر ’نازک‘ اور ’حساس‘ پرسنل ڈیٹا کی سرحد پار منتقلی پر تشویش ہے۔

ساتھ ہی اے آئی سی نے تجویز دی کہ مناسب طریقے سے تشکیل دی گئی ڈیٹا پروٹیکشن قانون سازی میں کاروباری اداروں اور صارفین کے لیے قابل اعتماد معیار فراہم کرنے اور ذاتی ڈیٹا کی محفوظ اور ذمہ دارانہ ہینڈلنگ کو یقینی بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔

اے آئی سی نے کہا کہ چونکہ پاکستان کی ڈیجیٹل معیشت فروغ پا رہی ہے یہ ضروری ہے کہ ملک کے پرائیویسی قوانین تین اہم اہداف کو مدنظر رکھیں جس میں ایک متحرک ڈیجیٹل معیشت کو فعال کرنے میں ڈیٹا کے تحفظ کی اہمیت شامل ہے جو صارفین کی حفاظت کرتی ہے اور پاکستانی انٹرپرائز کو سہولت فراہم کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: واٹس ایپ پالیسی: پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن بل، میسجنگ ایپ لانے کی تیاری

دیگر دو تجاویز پاکستان میں ڈیٹا سے چلنے والی جدت کو فروغ دینے اور ڈیٹا کے تحفظ کے لیے عالمی معیارات کے ساتھ مستقل مزاجی کی ضرورت تھیں۔

اے آئی سی نے یہ بھی کہا کہ لازمی ڈیٹا لوکلائزیشن کی ضروریات کو بل کے مسودے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔

خط میں کہا گیا کہ بل کے مسودے میں ڈیٹا لوکلائزیشن کی انتہائی وسیع شرائط شامل ہیں جو پاکستان میں کام کرنے والے تمام کاروباروں پر نمایاں بوجھ ڈالے گی۔

اے آئی سی کا کہنا تھا کہ ہمیں تشویش ہے کہ ’اہم ذاتی ڈیٹا‘ اور ’کچھ حساس ڈیٹا‘ کے زمرے وسیع ہیں، جس کی وجہ سے کمپنیوں کے لیے اپنے کاروبار کی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ نے متنازع سوشل میڈیا قوانین میں ترمیم کی منظوری دے دی

خط میں مزید کہا گیا کہ ڈیٹا لوکلائزیشن کے نتیجے میں ڈیٹا اسٹوریج کے اخراجات بڑھ جائیں گے جو بالآخر پاکستانی صارفین تک منتقل کیے جائیں گے۔

اے آئی سی نے یہ بھی کہا کہ مسودے میں ڈیٹا پروسیسنگ کے ہر علیحدہ مقصد کے لیے صارفین سے رضامندی حاصل کرنے کی ضرورت کے نتیجے میں صارفین کے پاس رضامندی کے نوٹسز کا سیلاب آجائے گا۔

خط میں کہا گیا کہ ڈیٹا پروٹیکشن کمیشن (کمیشن) کے اختیارات سے متعلق بے یقینی کو دور کیا جائے اور ڈیٹا کنٹرولرز کو رجسٹر کرنے اور لائسنس دینے کے کمیشن کے اختیارات کو ختم کرنے کی سفارش کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں