سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور ایک ہفتے میں 'دھماکا خیز مواد' سے منہدم کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 25 اکتوبر 2021
عدالت نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ متاثرین کو ان کی رقوم واپس کرائی جائیں—فائل فوٹو: آن لائن
عدالت نے کمشنر کراچی کو حکم دیا کہ متاثرین کو ان کی رقوم واپس کرائی جائیں—فائل فوٹو: آن لائن

سپریم کورٹ نے کراچی کی شاہراہِ فیصل پر قائم رہائشی عمارت نسلہ ٹاور کو ایک ہفتے میں 'کنٹرولڈ دھماکا خیز مواد' سے منہدم کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر قائد میں تجاوزات سے متعلق مختلف کیسز کی سماعت کی۔

دورانِ سماعت عدالت کے طلب کیے جانے پر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب، کمشنر کراچی سمیت دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیدار پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور کے بلڈرز کو خریداروں کی رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم

عدالت نے کمشنر کراچی کو ایک ہفتے کے اندر نسلہ ٹاور کی عمارت 'کنٹرولڈ ایمونیشن بلاسٹ' سے گرانے کا حکم دیا، ساتھ ہی ہدایت کی کہ دھماکے سے قریبی عمارتوں یا کسی انسان کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ نسلہ ٹاور کا مالک متاثرین کو رقم واپس کرے اور کمشنر کراچی کو ہدایت کی کہ کمشنر کراچی متاثرین کو رقوم کی واپسی یقینی بنائیں۔

علاوہ ازیں عدالت نے ایک ہفتے میں نسلہ ٹاور سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کی بھی ہدایت کردی۔

نالوں سے تجاوزات کے خاتمے پر سندھ ہائیکورٹ کا حکم امتناع معطل

کراچی کے گجر نالہ، اورنگی نالہ اور محمود آباد نالے سے متعلق سماعت میں کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ اس معاملے میں سندھ ہائی کورٹ نے کچھ حکم امتناع جاری کر رکھے ہیں۔

جس پر عدالت نے تینوں نالوں سے متعلق سندھ ہائی کورٹ کے حکم امتناع معطل کردیے اور ہدایت کی کہ نالوں کے اطراف جتنی تجاوزات ہیں وہ تمام ختم کرائی جائیں۔

رفاہی پلاٹوں کو خالی کرانے کا حکم

عدالت میں ضیا الدین ہسپتال ناظم آباد کی جانب سے پارکنگ کے لیے سرکاری جگہ پر قبضے کے خلاف درخواست کی سماعت بھی ہوئی۔

دورانِ سماعت ہسپتال کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ہسپتال نے کسی سرکاری جگہ پر قبضہ نہیں کیا لوگ خود ہی روڈ پر پارکنگ کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اتنا بڑا ہسپتال ہے آپ کی اپنی پارکنگ کیوں نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: یہ شہر ہے ہی نہیں کچرا ہے، چیف جسٹس کراچی تجاوزات کیس میں حکومت سندھ پر برہم

کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے ڈائریکٹر جنرل عدالت میں پیش ہوئے تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ آپ یہ روڈ کیوں نہیں بناتے جو بند کیا ہوا ہے۔

جس پر ہسپتال کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ پورے علاقے کا برا حال ہے منشیات کی اسمگلنگ ہورہی ہے۔

عدالت نے ڈی جی کے ڈی اے سے دریافت کیا کہ روڈ پر گھر کیسے بن گئے؟ گزشتہ 30 برسوں سے شہر کا یہی حال ہے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پورا کراچی گرے اسٹرکچر ہوگیا ہے، آپ لوگ دفتر میں بیٹھتے ہیں چائے پینے آتے ہیں، آپ نے شہر کو بنانا ہے آپ کو پتا ہے شہر کیا ہوتا ہے، ہسپتال کے سامنے والی سٹرک بند پڑی ہے۔

شہری نے کہا کہ جی سڑک بند ہے، ہسپتال نے قبضہ کیا ہوا، بی ون بی ٹو ہمارا پلاٹ ہے اور لیزڈ ہے اس پر کوئی قبضہ نہیں کیا ہے، میری جگہ پر تھانہ بنایا جارہا تھا، ضیا الدین ہسپتال نے ساڑھے 3 ہزار گز اراضی پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ نسلہ ٹاور صرف ساڑھے 3 سو گز پر توڑا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں تجاوزات کا معاملہ: سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر وزیراعلیٰ سندھ پیش

ضیا الدین ہسپتال کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے تجویز دی کہ جوائنٹ سروے کرالیں سب کچھ سامنے آجائے گا، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سروے تو ہوجائے گا اس پر عمل درآمد کون کرے گا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شہر میں گردو غبار کا حال دیکھ لیں، کے ڈی اے والے صاحب سہراب گوٹھ بھی کیا آپ کے ماتحت آتا ہے؟ وہاں سارے ڈمپر ٹرک کھڑے ہیں سارا اسکریپ پڑا ہوا ہے۔

جس پر وکیل نے کہا کہ یہ 4 کلو میٹر کا ایریا ہے جہاں یہ ڈمپر کھڑے ہیں۔

عدالت نے کہا کہ نظام تو کینیڈا سے چل رہا ہے جس پر کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ کچھ نظام یہاں سے بھی چلتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو اسٹے آرڈر پر چل رہے ہیں یہ تو آکسیجن ہے، آکیسجن نکال دیں گے تو آپ کا کیا بنے گا۔

عدالت میں کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے رفاہی پلاٹس سے متعلق رپورٹ پیش کی گئی۔

عدالت نے کہا کہ پارکوں کی زمینوں پر قبضہ کر کے گھر بنا لیے گئے جبکہ دیگر کمرشل سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔

بعدازاں عدالت نے ہدایت کی کہ ایڈمنسٹریر کراچی رفاہی پلاٹوں کو خالی کرا کہ وہ جن مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں اس کے لیے استعمال کریں۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں وزیر اعلیٰ کی پیشی

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ یہ صرف کراچی کا نہیں پورے سندھ کا معاملہ ہے، میں کل حیدر آباد سے ہوکر آیا ہوں دھول مٹی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کراچی کے ایک علاقے کا یہ حال کراچی سمیت سندھ کا کیا حال ہوگا؟ پارکوں پر کھیل کے میدانوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ ابھی ہم انڈونیشا گئے تھے کراچی سے بڑا شہر ہونے کے باوجود ایک سبز ہی سبز تھا، آپ بتائیں کیا پلان ہے آپ کا؟ ہماری سڑکیں دیکھیں کہیں سائن وغیرہ کچھ نہیں ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کچھ دن پہلے میں گلستان جوہر سے یونیورسٹی روڈ سے آیا سارے روڈ ٹوٹے ہوئے ہیں، آپ کے ماتحت اداروں میں کیا ہورہا ہے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ماسٹر پلان مانگ رہے ہیں وہ نہیں مل رہا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ کوئی اگر مگر نہیں بس بحالی کا کام کریں۔

سید مراد علی شاہ نے کہا کہ سندھ پبلک سروس کمیشن 3 ماہ سے غیر فعال ہے، سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اس کا کیس کا نمبر دے دیں دفتر میں ہم لگوا دیتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بہت ساری چیزیں ہیں جو اوپن کورٹ میں نہیں کہے سکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر کبھی موقع ملا تو سنیں گے، لوگوں نے سڑکوں پر قبضہ کرلیے ہیں انتظامیہ کہاں ہے؟ ہم سب کچھ قانون کے مطابق ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا کہ ہم عمل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہر مسئلے کا حل موجود ہے آپ دیکھ لیں آپ کچھ نہیں کررہے ہیں، آپ وفاقی حکومت وفاقی حکومت کہے رہے ہیں وہ آکر بیٹھ جائے گی تو آپ کہاں جائیں گے۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مرتضیٰ وہاب کی پیشی

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں شہر کے رفاعی پلاٹس کے قبضے سے متعلق سماعت ہوئی عدالت کے طلب کرنے پر ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا رفاہی پلاٹس سے متعلق رپورٹ جمع کرائی ہے ؟

جس پر ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ 200 رفاہی پلاٹ ہیں مجھے آئے ہوئے ڈھائی ماہ ہوئے ہیں، ریونیو جنریٹ کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ ہمیں لیکچر نہ دیں بلکہ کام کریں جتنے رفاہی پلاٹس ہیں قبضہ ختم کرائیں کھیل کے میدان بحال کریں۔

جس پر مرتضی وہاب نے کہا کہ کے ایم سی کے 42 پارکس فعال ہیں،کے ایم سی کی 9 ہزار دکانیں ہیں پیٹرولیم پمپس ہیں ہٹس ہیں انکا کرایہ بہت کم مل رہا ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کس نے کیا ہے یہ سب کچھ؟

مرتضی وہاب نے کہا کہ گزشتہ حکومتوں نے یہ سب کچھ کیا ہے، میرا اپنا شہر ہے دو ڈھائی ماہ میں جو کرسکتا تھا کیا ہے۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کیا سمجھ رہے ہیں ٹی وی پر بیٹھ کر بات کررہے ہیں۔

جس پر ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ میں صرف اپنا بولنے کا حق استعمال کررہا ہوں۔

جس پر جسٹس قاضی امین نے شدید اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ ہماری اجازت کے بعد بولیں گے،

چیف جسٹس نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے کہا کہ چلے جائیں۔

کے ایم سی کے وکیل نے کہا کہ میں نے سب کچھ نوٹ کرلیا ہے، رپورٹ جمع کرا دیں گے۔

جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ تجاوزات والوں کو نوٹس دے کر خالی کیوں نہیں کراتے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ شہر کے 90 فیصد حصے پر قبضہ ہوچکا ہے، اینٹی انکروچمنٹ کے پاس کوئی کام نہیں ہے اینٹی انکروچمنٹ کی تین عدالتیں خالی پڑی ہیں کام ہی نہیں ہے ہم نے پی ای سی ایچ ایس میں دیکھا ہے 400 گز کے گھر توڑ کر 4-4 منزلہ بنا لیے ہیں، کیا کے ایم سی ،کیا کے ڈی اے ،بد ترین صورت حال ہے جبکہ ایڈمنسٹریٹر آپ کٹھ پتلی ہیں۔

عدالت نے شہر کے رفاعی پلاٹوں،پارکوں اور کھیل میدانوں سے متعلق تفصلی رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

عدالت نے نیو کراچی سیکٹر 5میں کھیل کے میدان کو ایک ماہ میں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں