جرگے کا فیصلہ اسلامی فقہ کو نظر انداز نہیں کر سکتا، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2021
زمینی حقائق کے نام پر ملک میں مارشل لا لگایا گیا اور ججز کو دستاویزات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
زمینی حقائق کے نام پر ملک میں مارشل لا لگایا گیا اور ججز کو دستاویزات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نہ تو عدلیہ اور نہ ہی کوئی جرگہ وراثت کے اسلامی قوانین کا متبادل ہو سکتا ہے جسے ’دین الہٰی‘ نے 1400 سال پہلے ہی طے کر دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ ’اسلام میں وراثت کا قانون حتمی ہے اور عدالتیں اور نہ ہی کوئی جرگہ اسے تبدیل کر سکتا ہے، 13 جون 2004 کی پنچایت کے ذریعے جائیدادوں کی تقسیم کے بارے میں فیصلہ اسلامی شرعی قوانین سے بلند نہیں‘۔

یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب سوات میں جائیدادوں کی تقسیم کے بارے میں قانونی ورثا سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے آئے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی بھی شامل ہیں۔

یہ فیصلہ 1986 میں وفات پانے والے حبیب خان کی بیٹی حیات بی بی کی جانب سے دائر درخواست پر سنایا گیا۔

مزید پڑھیں: دیر بالا: زمین کے تنازع پر جرگے کے دوران فائرنگ، 8 افراد ہلاک

سینئر وکیل دل محمد علی زئی نے حبیب خان کی تیسری بیوی گل بیگم کی نمائندگی کی اور دعویٰ کیا کہ ان کے متوفی شوہر نے ثمر باغ میں واقع تمام جائیداد انہیں حق مہر میں دی تھی۔

تاہم عدالت نے پشاور ہائی کورٹ کے 18 جنوری 2016 کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا جس نے سول جج کے 15 جنوری 2015 کے حکم کو برقرار رکھا تھا اور دو سابقہ بیویوں کے تمام قانونی ورثا میں جائیداد کی مساوی تقسیم کا حکم دیا تھا۔

تازہ حکم نامے کے مطابق جائیدادیں 8 قانونی ورثا میں تقسیم کی جائیں گی جن میں سے زیادہ تر حبیب خان کی دو سابقہ بیویوں کی بیٹیاں ہیں۔

سول جج نے قانونی ورثا کی جانب سے دائر درخواست کو اس بنیاد پر خارج کر دیا کہ خاندان نے جائیداد کی تقسیم کا تنازع 20 رکنی جرگے کے ذریعے طے کر لیا تھا۔

اس کے علاوہ جج نے مشاہدہ کیا کہ دعویٰ حبیب خان کی موت کے 27 سال بعد اور جرگے کی طرف سے تنازع کے حل کے 9 سال بعد کیا گیا تھا۔

جرگے نے گل بیگم کی استدعا منظور کر لی تھی کہ اگرچہ ان کے مرحوم شوہر نے تمام جائیداد انہیں تحفے میں دے دی تھی لیکن پھر بھی اگر وہ چاہیں تو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جائیداد کسی بھی ورثا میں تقسیم کر سکتی ہیں۔

سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ 20 رکنی جرگے کا فیصلہ اسلامی فقہ کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: صوابی: جرگہ میں دو خاندانوں کے درمیان مسلح تصادم، 8 افراد ہلاک

انہوں نے کہا کہ جائیدادوں کی تقسیم سے متعلق دستاویزات میں گواہ کے طور پر سات سال کے بچے کے انگوٹھے کا نشان موجود ہے حالانکہ ایک نابالغ گواہ نہیں مانا جاسکتا یہاں تک کہ مقدمہ قتل میں سزائے موت کا ہی کیوں نہ ہو۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے دستاویزات کے ذریعے زمینی قوانین کا مذاق اڑایا گیا۔

جب وکیل نے استدعا کی کہ اس معاملے کا فیصلہ کرتے وقت عدالت کو زمینی حقائق پر بھی غور کرنا چاہیے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یاد دلایا کہ جس علاقے کے بارے میں وکیل بات رہے ہیں وہاں کے زمینی حقائق نے خواتین کو کم تر انسان سمجھ کر ان کے حقوق کی بھی پرواہ نہیں کی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ فوجی آمروں نے زمینی حقائق کے نام پر ملک میں مارشل لا لگایا اور ججز کو زمینی حقائق کی بنیاد پر دستاویزات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا۔

انہوں نے کہا کہ سعودی عرب میں عدالتیں جائیداد سے متعلق معاملات ایک ماہ میں نمٹاتی ہیں لیکن پاکستان میں مقدمات کے فیصلے عدالتوں میں کئی دہائیوں بعد سامنے آتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں