کوئنٹن ڈی کوک کے مؤقف پر افریقی کپتان حیران

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2021
ٹیمبا باووما نے کہا کہ ہم ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں — فائل فوٹو:آئی سی سی ٹوئٹر اکاؤنٹ
ٹیمبا باووما نے کہا کہ ہم ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں — فائل فوٹو:آئی سی سی ٹوئٹر اکاؤنٹ

جنوبی افریقہ کے کپتان ٹیمبا باووما کا کہنا تھا کہ ساتھی کرکٹر کوئنٹن ڈی کوک کا گھٹنے کے بل بیٹھ کر انسداد نسل پرستی کی تحریک میں شامل ہونے سے انکار کرنا حیرت انگیز ہے اور یہ ان کے لیے بطور کپتان ’مشکل ترین‘ دنوں میں سے ایک تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افریقی کرکٹ بورڈ کی جانب سے کھلاڑیوں کو انسداد نسل پرستی کی تحریک کی حمایت کرنے کے احکامات کی خلاف ورزی پر ڈی کوک کو میچ سے باہر کردیا گیا تھا۔

سابق کپتان نے تحریک کی حمایت میں گھنٹے پر بیٹھنے کے بجائے میچ سے باہر ہونے کا انتخاب کیا۔

کپتان ٹیمبا باووما نے صحافیوں کو بتایا کہ ’ان کے واپس جانے کی خبر سے ہمیں یقینی طور پر حیرت ہوئی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: نسل پرستی کے معاملے پر اختلاف، ڈی کوک ورلڈ کپ ادھورا چھوڑ کر چلے گئے

انہوں نے کہا کہ کوئنٹن ایک عظیم کھلاڑی ہیں اور نہ صرف ایک بلے باز بلکہ بطور سینئر کھلاڑی بھی انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے، بحیثیت کپتان میرے اختیار میں اس کا نہ ہونا واضح طور پر ایسی چیز تھی جس کا میں منتظر نہیں تھا۔

ٹیمبا باووما، جنہیں مختصر فارمیٹ میں ڈی کوک کی جگہ کپتان مقرر کیا گیا تھا اور وہ جنوبی افریقہ کی ٹیم کے پہلے سیاہ فام کپتان ہیں، جنہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں دبئی میں بس کے سفر کے دوران ڈی کوک کے فیصلے کا علم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ ’بورڈ کی جانب سے گھنٹے کے بل بیٹھنے کی ہدایت صبح آئی تھی، بورڈ کے چند اراکین کا اجلاس ہوا اور وہاں سے یہ پیغام ہمیں موصول ہوا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی20 ورلڈ کپ میں آسٹریلیا کا کامیاب آغاز، جنوبی افریقہ کو شکست

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خیال سے یہ ڈیڑھ، دو گھنٹے کا ٹرپ تھا، شاید اس ٹرپ میں کوئنٹن ڈی کوک نے واپس جانے کا فیصلہ کیا، جب ہم چینجنگ روم میں گئے تو مجھے بطور کپتان اس کا علم ہوا‘۔

ٹیمبا باووما نے کہا کہ ’کوئنٹن ایک عقلمند اور ثابت قدم شخص ہیں، ہم ان کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں، ہم ان کے عقیدے کا احترام کرتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ انہوں نے جو فیصلہ لیا ہے وہ اس پر ثابت قدم رہیں گے‘۔

ڈی کوک اس سے قبل بھی انسداد نسل پرستی کی تحریک میں حصہ لینے سے انکار کرچکے ہیں، یہ تحریک بیشتر کھیلوں میں عام بن چکی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں