شادی کی کم از کم عمر مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں، وفاقی شرعی عدالت

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2021
اسلامی ریاست کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی کوئی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے، عدالت — فائل فوٹو:ریڈیو پاکستان
اسلامی ریاست کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی کوئی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے، عدالت — فائل فوٹو:ریڈیو پاکستان

اسلام آباد: وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) نے کہا ہے کہ چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ (سی ایم آر اے) 1929 کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی حد 16 سال مقرر کرنے سے لڑکیوں کو کم سے کم بنیادی تعلیم حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ مشاہدہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب ایف ایس سی نے ایک پٹیشن کو مسترد کر دیا اور واضح طور پر قرار دیا کہ اسلامی ریاست کی طرف سے لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر کی کوئی حد مقرر کرنا اسلام کے خلاف نہیں ہے۔

چیف جسٹس محمد نور مسکانزئی کی سربراہی میں تین رکنی ایف ایس سی بینچ نے فاروق عمر بھوجا کی جانب سے سی ایم آر اے کے سیکشن 4، 5، 6 کو چیلنج کرنے والی درخواست کی سماعت کی۔

جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور کی طرف سے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ ’درخواست کی جانچ پڑتال کے بعد ہمارا خیال ہے کہ پٹیشن غلط فہمی پر ہے، اس لیے اسے مسترد کی جاتی ہے‘۔

مزید پڑھیں: مخنث افراد سے متعلق قانون کے خلاف درخواستوں پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب

10 صفحات پر مشتمل فیصلے میں ایف ایس سی نے کہا کہ جن سیکشنز میں شادی کے لیے لڑکیوں اور لڑکوں دونوں کے لیے کم ازکم عمر کی حد مقرر کی گئی ہے وہ غیر اسلامی نہیں ہے۔

سی ایم آر اے کے سیکشن 4 کے تحت بچے کی شادی کرنے پر قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جو چھ ماہ تک بڑھ سکتی ہے اور 50 ہزار روپے جرمانہ ہو سکتا ہے جبکہ سیکشن 5 اور 6 کسی بچے کے نکاح کی سزا اور بچوں کی شادی کی اجازت دینے یا فروغ دینے کی سزا کی وضاحت کرتے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ تعلیم کی اہمیت خود وضاحتی ہے اور تعلیم کی ضرورت ہر ایک کے لیے یکساں طور پر ضروری ہے، اسی لیے اسلام نے تعلیم کے حصول کو ہر مسلمان کے لیے لازمی قرار دیا ہے جیسا کہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ ’علم کا حصول ہر مسلمان پر لازم ہے'۔

عدالت نے کہا کہ ’حضور ﷺ کی طرف سے ایسی زبان کا استعمال ایک مسلم معاشرے میں اور ہر مسلمان کے لیے ہر حال میں تعلیم کی فرضیت کو واضح کرتا ہے کیونکہ تعلیم ہر انسان کی شخصیت کی نشوونما کے لیے بنیادی عوامل میں سے ایک ہے‘۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ایک بہترین شادی کے لیے نہ صرف جسمانی صحت اور معاشی استحکام وغیرہ ضروری عوامل ہیں بلکہ ذہنی صحت اور فکری نشوونما بھی یکساں اہم ہیں جو تعلیم کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا کہ ’تعلیم خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ کسی فرد کی ترقی اور اس کے نتیجے میں کسی بھی قوم کی آنے والی نسل کے لیے اہم ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمر میں شادی پر پابندی کا بل سینیٹ سے منظور

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ’ذاتی سطح پر لڑکی کے لیے یا کسی بھی جنس کے لیے تعلیم حاصل کرنے کا عنصر حفظ العقل کے تصور کے تحت آتا ہے یعنی عقل کی حفاظت اور فروغ جو شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے‘۔

اسلام کی تعلیمات کے مطابق لڑکی یا بیٹی کو بہترین تعلیم دینا انسان کے بہترین اعمال میں سے ایک ہے اور یہ جنت کی ضمانت ہے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ اس کی اہمیت کی وجہ سے امام بخاری رحمت اللہ علیہ نے اپنی مشہور حدیث کی کتاب ‘جامعہ البخاری شریف‘ کے شروع میں لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر تقریباً ایک پورا باب تشکیل دیا۔

فیصلے میں اشارہ دیا گیا کہ بہت سے اسلامی ممالک ہیں جہاں اس قسم کا قانون موجود ہے جس میں مرد اور عورت کے لیے شادی کی کم از کم عمر مقرر کی گئی ہے جیسے کہ اردن، ملائیشیا، مصر اور تیونس وغیرہ۔

تبصرے (0) بند ہیں