کراچی: تجوری ہائیٹس مسمار کرنے کے لیے بلڈر کو 4 ہفتوں کی مہلت

29 اکتوبر 2021
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے بلڈرز کو متاثرین کو 3 ماہ میں رقم واپس کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ - فائل فوٹو:ڈان
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے بلڈرز کو متاثرین کو 3 ماہ میں رقم واپس کرنے کا بھی حکم دے دیا۔ - فائل فوٹو:ڈان

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے گلشن اقبال میں ریلوے کی زمین پر تعمیر ہونے والے تجوری ہائیٹس مسمار کرنے کے لیے 4 ہفتوں کی مہلت دے دی۔

عدالت نے عمارت کے بلڈرز کو متاثرین کو 3 ماہ میں رقم واپس کرنے کا بھی حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تجوری ہائٹس کو مسمار کرنے کے کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

دوران سماعت تجوری ہائٹس کے بلڈر کے وکیل رضا ربانی سپریم کورٹ رجسٹری میں پیش ہوئے اور کہا کہ ’بلڈر تجوری ہائٹس کی عمارت گرانے پر رضا مند ہیں مناسب وقت دیا جائے‘۔

مزید پڑھیں: سی اے اے کو کراچی ایئرپورٹ کے احاطے میں شادی ہال چلانے سے روک دیا گیا

چیف جسٹس نے کہا کہ ’دو ہفتوں کی مہلت دے رہے ہیں بلڈنگ گرائیں‘، اس پر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ ’دو ہفتوں کا وقت بہت کم ہے‘۔

بعد ازاں عدالت نے بلڈنگ مسمار کرنے کے لیے 4 ہفتوں کی مہلت دیتے ہوئے متاثرین کو تین ماہ میں رقم واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے کہا کہ ’کمشنر کراچی عمارت مسمار کرنے کے عمل کی نگرانی کریں گے‘۔

وکیل تجوری ہائٹس نے عدالت میں استدعا کی کہ ’عمارت کمشنر کراچی کی تحویل میں ہے، وہاں موجود دفتر سے الاٹیز کا ریکارڈ نکالنے کی اجازات دی جائے‘۔

عدالت نے حکم جاری کیا کہ کمشنر کراچی تمام ریکارڈ درخواست گزار کے حوالے کریں اور اس کی فہرست بھی بنائیں اور سامان کی فہرست آئندہ سماعت پر رپورٹ کے ساتھ پیش کی جائے۔

'ہندو جم خانہ کی کھڑکی کو بھی اصل حالت میں بحال کریں'

عدالت میں ہندو جم خانہ کی عمارت ناپا سے خالی کرانے سے متعلق کیس کی سماعت میں کمشنر کراچی کے دیر سے پہنچنے پر عدالت نے ان کی سرزنش کی اور کہا کہ ’آپ لوگ نئے آئے ہیں اس لیے تھوڑی رعایت دے رہے ہیں، ورنہ اس طرح کی باتیں برداشت نہیں کی جاتی ہیں‘۔

عدالت نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ ’دنیا میں ہیرٹیج بلڈنگز دیکھی ہیں آپ نے‘، اس پر سیکریٹری ثقافت نے انہیں جواب دیا کہ ’ہمارے پاس آرٹس کونسل ہے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ارے چھوڑیں آرٹس کونسل کو رہنے دیں آرٹس کونسل کے چاروں طرف کچرا ہی کچرا ہے، آرٹس کونسل کے نام پر کنکریٹ کا ڈبہ بنایا ہوا ہے، آرٹ کا کوئی عکس وہاں ہے ہی نہیں‘۔

ہندو جم خانہ کے وکیل نیل کیشو نے بتایا کہ ’شہر میں 100 ثقافتی عمارتیں ہیں ایک کو بھی اپنی اصل حالت میں برقرار رکھنے کے لیے تحفظ فراہم نہیں کیا گیا‘۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور ایک ہفتے میں 'دھماکا خیز مواد' سے منہدم کرنے کا حکم

دوران سماعت شہر میں ثقافتی عمارتوں کی مناسب دیکھا بھال نہ ہونے پر چیف جسٹس نے سیکریٹری کلچر پر اظہار برہمی کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’ہر عبادت کی جگہ کا احترام کرتے ہیں، ہندو جم خانہ کی ثقافتی حثیت کو کوئی نقصان نہیں ہونا چاہیے‘۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہندو جم خانہ کی عمارت کو اصل حالت میں بحال رکھا جائے، ناپا کو چلانے والے بھی پڑھے لکھے ہیں وہ ثقافتی عمارت کا تحفظ یقینی بنائیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’شہر میں ثقافتی عمارتوں کی بھر مار تھی برنس روڈ، پاکستان چوک یہ ہیرٹیج کسی اور ملک میں ہوتے تو وہاں کی ٹورازم کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہوتی‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سارے سیکریٹریز اپنے دفاتر میں بیٹھے رہتے ہیں، ان کو کیا پتا کلچر کیا ہوتا ہے‘۔

سیکریٹری ثقافت نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومت نے ثقافت کے لیے بڑی رقم رکھی ہوئی ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’لیکن سب کھا جاتے ہیں‘۔

سیکریٹری ثقافت نے بتایا کہ ’ہمارے پاس موہنجو داڑو ہے، مکلی ہے، ہڑپّہ ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’موہنجو داڑو، مکلی سے لوگ اینٹیں تک اٹھا کر لے گئے ہیں، پوچھتا کون ہے اب موہنجو داڑو کو دنیا میں، آپ کے پاس کچھ نہیں ہے‘۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ’سندھ ملک کا بد قسمت صوبہ ہے جو اپنے ثقافتی ورثے کا تحفظ نہیں کرسکا ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’زیب النسا اسٹریٹ پر تاریخی عمارتیں تھیں، سب گرا کر پلازے بنادیے گئے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’قائد اعظم کے مزار کے پاس دیکھیں پرانی عمارتیں گرا کر ملٹی اسٹوریز گھر بنائے جارہے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور کے بلڈرز کو خریداروں کی رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ’حکومت کو جو ثقافتی بلڈنگ گرانی ہو وہ اسے خطرناک قرار دے دیتے ہیں‘۔

چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے مکالمہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’کمشنر صاحب آپ کا شہر ہے یہ، آپ نے شہر دیکھا ہے؟‘ جس پر کمشنر کراچی نے بتایا کہ ’جی میں نے 50 فیصد شہر دیکھ لیا ہے‘۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ’20 روز میں آپ نے آدھا شہر دیکھ لیا ہے جہاز پر دیکھا ہے کیا؟‘

کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ ’میرا تعلق حیدرآباد سے ہے‘، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’حیدر آباد کے حالات تو کراچی سے بھی گئے گزرے ہیں‘۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’شکار پور کا ہیرٹیج ختم کردیا ہے، سکھر بیراج کالونی کے بنگلے گرا دیے ہیں جو انگریزوں نے بنائے تھے، مکلی، موہنجو داڑو میں کتے گھومتے ہیں‘۔

انہوں نے کمشنر کراچی کو ناپا کو مناسب جگہ دینے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ نہ ہو کہ ناظم آباد میں جگہ دے دیں جہاں کوئی جاہی نہ سکے کلاسیں لینے، ناپا کو کوئی ایسی جگہ دیں جہاں آسانی سے آنا جانا ہو اور وہ شہر کے وسط میں ہو‘۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’ہیرٹیج عمارت میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکتی، ہندو جم خانہ کو اصل حالت میں بحال رکھنا متعلقہ ادارے کی ذمہ داری ہے‘۔

بعد ازاں عدالت نے حکم دیا کہ ہندو جم خانہ میں تبدیل کی گئی کھڑکی کو بھی اصل حالت میں بحال کیا جائے اور ناپا کو سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے مناسب مقام پر دو ایکڑ جگہ دی جائے۔

عدالت نے مزید سماعت آئندہ سیشن تک ملتوی کردی۔

تبصرے (0) بند ہیں