ٹی ایل پی کا مارچ جاری، رینجرز نے وزیر آباد کے قریب ’ریڈ لائن‘ لگادی

تقریباً 5 ہزار شرکا پر مشتمل ریلی وزیرآباد کی جانب بڑھ رہی ہے —تصویر: ڈان نیوز
تقریباً 5 ہزار شرکا پر مشتمل ریلی وزیرآباد کی جانب بڑھ رہی ہے —تصویر: ڈان نیوز

کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ہزاروں کارکنان کاروں، بسوں اور پیدل گوجرانوالہ سے اسلام آباد کی جانب مارچ رواں دواں ہے جبکہ کراچی میں تنظیم کے شرکا نے ریلی نکالی اور کراچی پریس کلب پہنچ کر اپنے مطالبات کو تسلیم کرنے کے حق میں نعرے بازی کی۔

احتجاجی مارچ میں شامل شرکا نے رات گرینڈ ٹرنک روڈ المعروف جی ٹی روڈ پر جنرل بس اسٹینڈ کے قریب پڑاؤ ڈالا تھا اور وزیر داخلہ کی جانب سے مارچ روکنے یا نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی کے باوجود صبح دوبارہ اپنی ریلی شروع کردی۔

تقریباً 5 ہزار شرکا پر مشتمل ریلی وزیرآباد کی جانب بڑھ رہی ہے اور اس دوران رک کر نمازِ جمعہ بھی ادا کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں:سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے والے کالعدم تنظیم کے 32 اراکین گرفتار کرلیے، فواد چوہدری

ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا تھا کہ 2 سیکیورٹی پوائنٹس پر ٹی ایل پی اور پولیس کے مابین بڑا تصادم ہونے کا خطرہ ہے، یہ سیکیورٹی پوائنٹس دریائے چناب اور جہلم پر قائم کیے گئے تھے جو مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کا واضح راستہ ہے۔

انتباہی نوٹس—تصویر: بشکریہ اقبال مرزا
انتباہی نوٹس—تصویر: بشکریہ اقبال مرزا

انہوں نے کہا تھا کہ اس مرتبہ رینجرز کمان کی قیادت کرے گی جبکہ پولیس ان کی معاونت کرے گی۔

پولیس ذرائع کے مطابق جمعہ کے روز رینجرز اور پولیس کے ہزاروں اہلکاروں چناب ٹول پلازہ پر تعینات کیا گیا، سیکیورٹی اہلکاروں کے پاس مسلح بکتر بند گاڑیاں اور فسادات سے نمٹنے کے آلات موجود ہیں۔

چناب ٹول پلازہ سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر پنجاب رینجرز نے ایک 'ریڈ لائن' کو نشان زد کیا ہے اور ساتھ ہی ایک نوٹس لگا کر مظاہرین کو متنبہ کیا گیا کہ وہ لائن کی خلاف ورزی نہ کریں ورنہ نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

مزید پڑھیں:ٹی ایل پی کا اسلام آباد مارچ، تصادم میں 4 پولیس اہلکار شہید، درجنوں زخمی

بینر پر تحریر تھا کہ ’خبردار! اس لائن سے آگے امن و امان کی ذمہ داری پاکستان رینجرز پنجاب کے پاس ہے، جنہیں شرپسندوں کو گولی مارنے کا اختیار دیا گیا ہے تمام لوگوں کو سختی سے خبردار کیا جاتا ہے کہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں‘۔

راولپنڈی میں قانون نافذ کرنے والے ادارے چوکس

حکام نے ٹی ایل پی مارچ کے پیشِ نظر نقصِ امن سے نمٹنے کے لیے راولپنڈی کے تمام داخلی اور خارجی راستے بدستور کنٹینرز اور رکاوٹیں لگا کر بند رکھے ہوئے ہیں۔

اس سلسلے میں میٹرو ٹریک سمیت شہر کے اہم مقامات پر رینجرز کے دستے تعینات کیے گئے ہیں جبکہ فیض آباد انٹرچینج پر ایف سی رینجرز ایلیٹ فورس اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کا احتجاج جاری، کارکنان گوجرانوالہ کی جانب رواں دواں

علاوہ ازیں راولپنڈی میں مری روڈ، کمیٹی چوک، لیاقت باغ، مریڑ حسن، سکستھ روڈ سمیت دیگر رابطوں سڑکوں کو گزشتہ روز سیل کر دیا گیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ مریڑ چوک سے فیض آباد تک تمام تعلیمی ادارے اور میٹروس بس سروس اور پبلک ٹرانسپورٹ اور مری روڈ پر واقع بینکس، دفاتر، تجارتی مراکز کو بھی بند کیا گیا ہے۔

راستوں کی بندش کے باعث ملحقہ علاقوں میں بسنے والوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔

علاوہ ازیں راولپنڈی کینٹ کے علاقوں کو بھی کنٹینرز کی مدد سے بند کیا گیا ہے اور صورتحال کے پیش نظر راولپنڈی اور لاہور کے درمیان ٹرین آپریشن بھی بند کر دیا گیا ہے۔

کراچی میں ٹی ایل پی ریلی

کراچی میں ٹی ایل پی ریلی کے شرکا ریگل چوک سے ہوتے ہوئے کراچی پریس کلب پہنچ گئے ہیں

احتجاجی شرکا کی وجہ سے ریگل چوک اور اس کے اطراف کی شاہراہیں ٹریفک کی آمد و رفت کے لیے بند کردی گئی تھیں جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات تھی۔

ٹی ایل پی ریلی کے شرکا کراچی پریس کلب کے باہر پہنچے اور اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کی۔

پولیس نے کراچی پریس کلب کو جانے والی مرکزی شاہراہ ٹریفک کے لیے بعد کردی جبکہ اطراف کی جگہوں پر بھاری تعداد میں اہلکار تعینات کردیے۔

ٹی ایل پی احتجاج کا پس منظر

گزشتہ برس میں فرانس میں سرکاری سطح پر گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر مسلم دنیا میں سخت ردعمل آیا تھا خاص طور پر پاکستان میں بھی اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور تحریک لبیک پاکستان نے اسلام آباد میں احتجاج کیا تھا جسے حکومت کے ساتھ 16 نومبر کو معاہدے کے بعد ختم کردیا گیا تھا۔

تاہم مطالبات کی عدم منظوری پر تحریک لبیک نے 16 فروری کو اسلام آباد میں مارچ اور دھرنے کا اعلان کیا تھا، بعدازاں مہلت ختم ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے مطالبات کی عدم منظوری اور معاہدے پر عملدرآمد نہ کیے جانے پر تحریک لبیک نے حکومت کو 20 اپریل کی ڈیڈ لائن دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان

تاہم 12 اپریل کو سعد رضوی کو امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے بعد جس پر ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس نے بعد ازاں پر تشدد صورت اختیار کرلی تھی جس کے پیشِ نظر حکومت نے تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

حافظ سعد حسین رضوی کو ابتدائی طور پر 3 ماہ تک حراست میں رکھا گیا اور پھر 10 جولائی کو دوبارہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت ایک وفاقی جائزہ بورڈ تشکیل دیا گیا جس میں 23 اکتوبر کو ان کے خلاف حکومتی ریفرنس لایا گیا۔

قبل ازیں یکم اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ نے سعد رضوی کی نظر بندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے خلاف حکومت نے اپیل دائر کی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ کا ڈویژن بینچ ابھی تک تشکیل نہیں دیا گیا۔

مزید پڑھیں: ٹی ایل پی کا اسلام آباد مارچ، تصادم میں 4 پولیس اہلکار شہید، درجنوں زخمی

بعد ازاں حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے 12 اکتوبر کو سنگل بینچ کے حکم پر عمل درآمد معطل کردیا تھا اور ڈویژن بینچ کے نئے فیصلے کے لیے کیس کا ریمانڈ دیا تھا۔

تاہم 19 اکتوبر کو عید میلاد النبی ﷺ کے موقع پر نکالے گئے جلوس کو کالعدم جماعت نے اپنے قائد حافظ سعد رضوی کی رہائی کے لیے احتجاجی دھرنے کی شکل دے دی تھی۔

بعدازاں 3 روز تک لاہور میں یتیم خانہ چوک پر مسجد رحمت اللعالمین کے سامنے دھرنا دینے کے بعد ٹی ایل پی نے اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

21 اکتوبر کو کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے لاہور میں 3 روز تک دھرنا دینے کے بعد اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کارکنوں کو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے روکا گیا تو ٹی ایل پی نے پلان ’بی‘ بھی تیار کرلیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: ٹی ایل پی اور پولیس میں جھڑپیں، 3 اہلکار شہید، متعدد زخمی

23 اکتوبر کو لاہور میں کالعدم ٹی ایل پی کے قائدین اور کارکنوں کے پولیس کے ساتھ تصادم کے نتیجے میں 3 پولیس اہلکار شہید اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

دو روز قبل بھی مریدکے اور سادھوکے کے قریب ٹی ایل پی کے مشتعل کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 4 پولیس اہلکار جاں بحق اور 263 زخمی ہوگئے تھے۔

حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے لیکن دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کا اب تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے۔

حکومت واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ وہ پاکستان میں فرانسیسی سفارت خانے کو بند کرنے کے ٹی ایل پی کے مطالبے کو پورا نہیں کر سکتی، ساتھ ہی انکشاف کیا تھا کہ ملک میں فرانس کا کوئی سفیر نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: لاہور: سعد رضوی کی رہائی کیلئے ’ٹی ایل پی‘ کے کارکنوں کا دھرنا، پولیس ہائی الرٹ

اس کے علاوہ کابینہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ٹی ایل پی کو عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے گا اور اسے کچل دیا جائے گا جیسا کہ اس طرح کے دیگر گروپس کو ختم کر دیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں