سی اے اے کو کراچی ایئرپورٹ کے احاطے میں شادی ہال چلانے سے روک دیا گیا

اپ ڈیٹ 27 اکتوبر 2021
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے واضح کیا کہ سی اے اے کو ہوائی اڈے اور اس سے منسلک سروسز کے علاوہ اپنی زمین کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ - فائل فوٹو:ڈان
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے واضح کیا کہ سی اے اے کو ہوائی اڈے اور اس سے منسلک سروسز کے علاوہ اپنی زمین کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ - فائل فوٹو:ڈان

کراچی: سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے ڈائریکٹر جنرل کو سندھ بورڈ آف ریونیو (بی او آر) کی جانب سے کراچی ایئرپورٹ کے قریب زمین سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کو ایک نیا ٹرمینل بنانے کے لیے الاٹ کی گئی زمین کا ایک ٹکڑا نجی افراد کو الاٹ کیے جانے کی تفصیلات کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہوائی اڈے کے قریب اپنے احاطے میں شادی ہال چلانے پر سی اے اے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ایوی ایشن ریگولیٹر کو کراچی اور ملک کے دیگر تمام ہوائی اڈوں پر اپنی زمین کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے سے بھی روک دیا۔

بینچ نے واضح کیا کہ سی اے اے کو ہوائی اڈے اور اس سے منسلک سروسز کے علاوہ اپنی زمین کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل خاقان مرتضیٰ بی او آر کی جانب سے اتھارٹی کی زمین نجی شخص کو مبینہ طور پر الاٹ کرنے کے خلاف درخواست کی سماعت کرنے والے بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور ایک ہفتے میں 'دھماکا خیز مواد' سے منہدم کرنے کا حکم

انہوں نے کہا کہ 1992 میں سی اے اے کو 209 ایکڑ اراضی کا ایک نیا ٹرمینل لگانے کے لیے زمین الاٹ کی گئی تھی لیکن بورڈ آف ریونیو نے اسے غیر قانونی طور پر نجی افراد کو پلاٹوں میں تقسیم کر دیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سی اے اے کے چند اہلکار بھی غیر قانونی الاٹمنٹ میں ملوث تھے جس کی وجہ سے سی اے اے نے معاملہ ایف آئی اے کو بھجوایا تھا جس نے الاٹمنٹ کے دستاویزات کو جعلی قرار دیا تھا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی ہدایت پر زیر بحث زمین کے مشترکہ سروے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ بورڈ آف ریونیو نے انہیں سروے کی کاپی فراہم نہیں کی۔

نئے سروے کے حوالے سے جسٹس احسن نے بی او آر سے سوال کیا کہ دوسرے سروے کا حکم کس نے دیا تھا اور کیا بی او آر نئے سروے کے بہانے جعلی پلاٹس نکالنا چاہ رہا ہے؟

انہوں نے یہ بھی سوال کیا کہ ایس آر بی نے وفاقی حکومت کی زمین کا ایک ٹکڑا نجی افراد کو کیسے الاٹ کردیا۔

سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو شمس الدین سومرو نے عدالت کو بتایا کہ زیر بحث زمین سی اے اے کو مارکیٹ ویلیو کے مطابق الاٹ نہیں کی گئی جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صوبائی حکام نے کون سی زمین اس کی مارکیٹ ویلیو کے حساب سے الاٹ کی ہے؟

سی اے اے کے سربراہ نے استدلال کیا کہ بورڈ نے غیر قانونی طور پر سی اے اے کی حدود میں واقع زمین نجی افراد کو الاٹ کی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا نسلہ ٹاور کے بلڈرز کو خریداروں کی رقم 3 ماہ میں واپس کرنے کا حکم

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ایئرپورٹ کے احاطے میں شادی ہال چلانے پر سی اے اے کے سربراہ کی سرزنش کی۔

ڈی جی خاقان مرتضیٰ نے کہا کہ سی اے اے کے قانون میں کہا گیا کہ اتھارٹی کی زمین ریونیو جنریشن کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے انہیں ایوی ایشن انڈسٹری چھوڑ کر شادیوں کا کاروبار شروع کرنے کو کہا جس پر خاقان مرتضیٰ نے کہا کہ سی اے اے شادی ہالوں کو بند کرنے کے لیے تیار ہے اگر عدالت ہمیں ایسا کرنے کی ہدایت دے۔

چیف جسٹس کے ایئرپورٹ پر سرگرمیوں سے متعلق ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے سی اے اے کے سربراہ نے کہا کہ بین الاقوامی پروازوں میں کمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود کراچی ایئرپورٹ پر روزانہ کی بنیاد پر 60 سے 80 پروازیں اتر رہی ہیں۔

عسکری پارک میں تجارتی سرگرمیاں

بینچ نے پرانی سبزی منڈی کے قریب عسکری پارک کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے خلاف درخواست پر متعلقہ حکام کو نوٹس جاری کر دیے۔

درخواست گزار نوید خان نے بتایا کہ پارک کی زمین کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کی ہے اور حاصل کرنے کا معاہدہ اس وقت کی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی اور ملٹری حکام کے درمیان 2005 میں پارک کی ترقی اور دیکھ بھال کے لیے ہوا تھا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ پارک کے احاطے میں شادی ہال اور دیگر تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں۔

بینچ نے آئندہ سماعت پر کمشنر کراچی، کمانڈر انجینئر کور ون اور دیگر کو نوٹس جاری کر دیئے۔

گرین بیلٹ پر گرڈ اسٹیشن

بینچ نے پی ای سی ایچ ایس کے بلاک 6 میں گرین بیلٹ پر ایک گرڈ اسٹیشن قائم ہونے کے معاملے پر کے الیکٹرک، پی ای سی ایچ سوسائٹی اور دیگر کو بھی نوٹسز جاری کیے۔

مزید پڑھیں: یہ شہر ہے ہی نہیں کچرا ہے، چیف جسٹس کراچی تجاوزات کیس میں حکومت سندھ پر برہم

کے الیکٹرک کے خلاف 6 درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا لیکن بینچ نے نوٹ کیا کہ درخواست میں درج ان کے پتے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بھی گرین بیلٹ کی زمین پر رہائش پذیر ہیں۔

بینچ نے نوٹ کیا کہ گرڈ اسٹیشن کے قیام کے لیے کے الیکٹرک کو زمین کی الاٹمنٹ بظاہر قانون کے مطابق نہیں تھی کیونکہ زیر بحث زمین سہولت/پارک کے مقصد کے لیے تھی۔

مزید کہا گیا کہ درخواست گزار کے ہاتھ بھی صاف نہیں ہیں کیونکہ وہ بھی بظاہر اسی زمین پر رہائش پذیر ہیں۔

عدالت نے ان کے ساتھ ساتھ گرین بیلٹ پر قبضہ کرنے والے دیگر افراد کو بھی نوٹس میں شامل کرلیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں