’دوران قید بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، لگتا تھا مرجاؤں گا‘

اپ ڈیٹ 30 اکتوبر 2021
ساجد خان نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے سی آئی اے اہلکاروں کو سے التجا کی کہ وہ تشدد بند کردیں—فائل فوٹو: اے پی
ساجد خان نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے سی آئی اے اہلکاروں کو سے التجا کی کہ وہ تشدد بند کردیں—فائل فوٹو: اے پی

امریکا کی بدنام زمانہ جیل ’گوانتاناموبے‘ کے پاکستانی نژاد برطانوی قیدی ماجد خان نے پہلی مرتبہ امریکی سی آئی اے کے سفاکانہ نفسیاتی حربے اور جسمانی مظالم کے بارے میں بات کی جسے سی آئی اے خفیہ رکھنا چاہتی تھی۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے پی‘ کے مطابق ماجد خان نے سی آئی اے کی ان تکنیکوں کا تذکرہ کیا جس کے بعد وہ خوفزدہ رہنے لگے اور وہ نفسیاتی مرض ہیلو سینیشن کا شکار ہوگئے جس میں انہیں نامعلوم شکلیں اور آوازیں سنائی دینے لگیں۔

مزید پڑھیں: گوانتاناموبے سے مزید 2 قیدیوں کی رہائی کی منظوری

ماجد خان کو برطانیہ کے شہر بالٹی مور کے مضافات سے حراست میں لیا گیا، ان پر القاعدہ کا کورئیر بن جانے کا الزام تھا اور انہوں نے جنگی جرائم کے مقدمے میں سزا مقرر کرنے کے لیے سماعت کے دوران جیوری کے ارکان کو سی آئی اے کے غیر انسانی حربوں کا انکشاف کیا۔

ماجد خان نے جیوری کو سی آئی اے کے زیر استعمال خفیہ ’بلیک سائٹس‘ کے بارے میں بتایا جہاں قیدیوں سے معلومات حاصل کرنے کے لیے بدترین تشدد کیا جاتا تھا۔

انہوں نے جیوری میں بتایا کہ چھت کے شہتیر سے لمبے عرصے تک برہنہ باندھ دیا جاتا تھا، کئی دنوں تک بیدار رکھنے کے لیے برف کا پانی ڈالا گیا، پانی میں ڈبودیا جاتا یہاں تک کہ موت واقع ہونے لگتی، منہ اور ناک میں زبردستی پانی ڈالا جاتا تھا۔

ماجد خان نے مزید بتایا کہ انہیں پیٹ خالی کرنے والی دوا انیما زبردستی دی جاتی، جنسی تشدد کیا گیا اور یہ سب بیرون ملک جیلوں میں کیا گیا، جو خفیہ تھیں۔

41 سالہ ساجد خان نے بتایا کہ سی آئی اے کے اہلکار انہیں بلیک سائٹس پر کئی دن تک بھوکا رکھتے تھے اور بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا کہ اب میں مر جاؤں گا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی شہری سمیت 10 افراد گوانتاناموبے سے رہائی کے منتظر

ساجد خان نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے سی آئی اے اہلکاروں کو التجا کی کہ وہ تشدد بند کردیں کیونکہ وہ القاعدہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے امریکی اہلکاروں کو کہا کہ اگر میرے پاس معلومات ہوتیں تو میں پہلے ہی دے دیتا کیونکہ اب میرے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

ساجد خان نے 39 صفحات پر مشتمل بیان کو پڑھتے ہوئے پہلے دن بات کی جس میں کیوبا میں امریکی اڈے پر دو روز میں سزا سنائے جانے کی توقع ہے۔

پینٹاگون کے ایک قانونی اہلکار کی جانب سے منتخب فوجی افسران کا ایک پینل ساجد خان کو 25 سے 40 سال کے درمیان قید کی سزا دے سکتا ہے لیکن امریکی حکام کے ساتھ اپنے وسیع تعاون کی وجہ سے انہیں بہت کم سزا دیے جانے کا امکان ہے۔

مزید پڑھیں: گوانتانامو جیل سے 4 قیدیوں کی سعودی عرب منتقلی

پینل کی جانب سے ساجد خان کو 11 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے لیکن فروری 2012 کی مجرمانہ درخواست کے بعد سے ان کی حراست کے دن گنے جائیں گے۔

اس کا مطلب ہے کہ انہیں آئندہ برس کے اوائل میں رہا کر دیا جائے گا۔

گوانتاناموبے جیل کا معاملہ کیا ہے؟

خیال رہے کہ نیویارک میں 11 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ہونے والے حملے کے بعد ریپبلکن پارٹی کے رہنما اور سابق امریکی صدر جارج بش نے کیوبا کے جزیرے گوانتانامو بے میں یہ جیل بنوائی تھی۔

سی این این کی ایک رپورٹ کے مطابق گوانتاناموبے میں 2001 کے بعد 40 ممالک کے 750 افراد کو قیدی بنایا گیا تھا۔

ان قیدیوں کو انتہائی خطرناک قرار دے کر کسی بھی قسم کی قانونی مدد کے بغیر گوانتاناموبے میں ہمیشہ کے لیے قید کیا گیا تھا اور یہاں ان کے ساتھ انتہائی انسانیت سوز رویہ اختیار کیا گیا۔

2008 میں ڈیموکریٹک پارٹی کے براک اوباما امریکا کے صدر بنے تو انہوں نے یہ عقوبت خانہ بند کرنے کا اعلان کیا، اوباما کا کہنا تھا کہ گوانتانامو بے پر سالانہ 15 کروڑ امریکی ڈالر خرچ ہو رہے ہیں لہذا اس کو بند کرکے اس رقم کی بچت کی جا سکتی ہے۔

لیکن 2016 میں صورتحال یکسر بدل گئی اور ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی مہم کے دوران ہی نہ صرف گوانتانامو بے کو جاری رکھنے کا اعلان کیا بلکہ اس میں مزید افراد کو قید کرنے کا بھی عندیہ دیا۔

بعدازاں صدارت سنبھالنے کے بعد ایک حکم نامے کے تحت انہوں نے سابقہ امریکی صدر براک اوباما کے احکامات کو بھی معطل کردیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر ’ڈینی ایواتار‘ نے اس معاملے پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کی تاریخ، غیر قانونی حراست اور انصاف کی فراہمی میں بے قاعدگی کے باعث گوانتانامو بے میں کسی نئے قیدی کو منتقل نہیں کیا جانا چاہیے۔

خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جیمس میٹیس اور دیگر ایجنسیوں کے سربراہان کو 90 دن میں جنگی قیدیوں کی گوانتانامو بے منتقلی کے حوالے سے اپنی سفارشات مرتب کرکے پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔

اس سلسلے میں امریکی حکام کا کہنا تھا کہ شام میں موجود امریکی اتحادیوں کی جانب سے قید داعش کے کارندوں کو ممکنہ طور پر اس جیل میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔

پنٹاگون چیف نے اس بارے میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ مجھے پورا یقین ہے کہ گوانتانامو بے میں ایک بھی قیدی کے ساتھ جینیوا کنوینشن کی قرارداد کے خلاف کسی قسم کا سلوک نہیں کیا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں