تشدد کے شکار گوانتاناموبے کے پاکستانی نژاد قیدی کیلئے جیوری کی رحم کی اپیل

اپ ڈیٹ 02 نومبر 2021
ماجد خان کو خفیہ معلومات ظاہر نہ کرنے کی رضامندی پر اپنے کہانی سنانے کی اجازت دی گئی تھی— فائل فوٹو:اے پی
ماجد خان کو خفیہ معلومات ظاہر نہ کرنے کی رضامندی پر اپنے کہانی سنانے کی اجازت دی گئی تھی— فائل فوٹو:اے پی

گوانتاناموبے کے قیدی کو جیل کی 26 سال قید کی سزا سنانے والے امریکی فوج کے 7 سینیئر افسران نے رحم کی اپیل جاری کردی اور ایک خط میں سی آئی اے کی جانب سے قیدی پر کیے گئے تشدد کو امریکا پر ’داغ‘ قرار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق11 ستمبر کے حملے کے تناظر میں قید کیے گئے کسی قیدی کی جانب سے تشدد کے بارے میں منظر عام پر آنے والے پہلے بیان میں پاکستانی نژاد ماجد خان نے سزا سنانے والی جیوری کو بتایا تھا کہ کس طرح سی آئی اے تفتیش کاروں نے انہیں ریپ کیا، مارا پیٹا اور پانی میں غوطے دیے۔

سال 2002 میں القاعدہ کی سازش میں کی مدد کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ماجد خان کو کیوبا میں واقع امریکی نیوی کے اڈے پر 29 اکتوبر کو سزا سنائی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: ’دوران قید بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، لگتا تھا مرجاؤں گا‘

تاہم ایک ہاتھ سے لکھے گئے خط میں فیصلہ دینے والی 8 رکنی جیوری کے 7 اراکین نے ماجد خان پر ہونے والے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ امریکا کی اخلاقی قدروں پر داغ ہے‘، یہ خط سب سے پہلے نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔

بعدازاں گوانتاناموبے کے فوجی کمیشن نے بھی غیر ملکی خبر رساں ادارے’ اے ایف پی‘ کو اس خط کی تصدیق کی۔

ان افسران میں 6 فوجی اور نیوی کے افسران اور ایک میرین شامل تھے جنہوں نے کہا کہ ’درج ذیل پینل اراکین نے ماجد شوکت خان کے کیسز میں رحم کی سفارش کی ہے‘۔

انہوں نے نام نہ ظاہر کرتے ہوئے جیوری کے اراکین کے ساتھ خط پر دستخط بھی کیے۔

مزید پڑھیں: گوانتاناموبے سے مزید 2 قیدیوں کی رہائی کی منظوری

خط میں کہا گیا کہ ’ماجد خان نے امریکا اور اس کی ساتھی اقوام کے خلاف سنگین جرائم کیے، یہ ان جرائم میں ملوث پائے گئے، انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا اور متاثرہ افراد اور ان کے اہلِ خانہ پر پڑنے والے اثرات پر افسوس کا اظہار کیا۔

اس سے پہلے کی ایک رحم کی اپیل، جس سے ججز واقف نہیں تھے، اس کی بنیاد پر ماجد خان کو 19 سال امریکی قید میں گزارنے کے بعد آئندہ سال کے اوائل میں رہا ہونا تھا۔

ماجد خان کو خفیہ معلومات ظاہر نہ کرنے کی رضامندی پر اپنے کہانی سنانے کی اجازت دی گئی تھی۔

39 صفحات پر مشتمل اپنے بیان میں انہوں نے مارچ 2003 میں کراچی میں گرفتار ہونے کے بعد پاکستان، افغانستان اور ایک تیسرے ملک میں تشدد کا نشانہ بننے کے بارے میں بتایا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں