کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے مردہ حالت میں ملنے والے شخص کے لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

04 نومبر 2021
ناظم سجاول جوکھیو کے لواحقین نے نیشنل ہائی وے پر لاش کے ساتھ دھرنا دیا— فوٹو: پی پی آئی
ناظم سجاول جوکھیو کے لواحقین نے نیشنل ہائی وے پر لاش کے ساتھ دھرنا دیا— فوٹو: پی پی آئی

کراچی کے علاقے ملیر میں پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے مردہ حالت میں ملنے والے ناظم سجاول جوکھیو کے لواحقین نے دوسرے روز بھی احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا اور واقعے میں ملوث افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) خالد عباسی کے مطابق ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کے ملیر کے علاقے میں واقع جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے ملی تھی۔

مزید پڑھیں: کراچی: ملیر میں رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس سے لاش برآمد

مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے مبینہ قتل میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

ان سمیت مقتول کے دیگر رشتہ داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی اور اس ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے اپنے گاؤں میں جانوروں کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس کے بعد انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ قتل کی دھمکیاں بھی دی گئی تھی۔

جمعرات کو لواحقین کے ساتھ ساتھ جوکھیو برادری کے افراد نے ابتدائی طور پر گھگھر پھاٹک کے قریب مرکزی نیشنل ہائی وے پر لاش کے ساتھ دھرنا دیا، بعد ازاں انہوں نے مقتول کو قریبی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا اور دوبارہ دھرنا شروع کر دیا جو شام تک جاری رہا۔

مظاہرے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اور کارکن بھی شامل ہوئے جن میں مسلم لیگ(ن) کے رہنما قادر کلمتی، تحریک انصاف رہنما ڈاکٹر مسرور سیال، مسلم لیگ۔فنکشنل کے رکن اسمبلی نصرت عباسی، سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے رہنما زین شاہ اور سابق رکن قومی اسمبلی حکیم بلوچ شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اخلاق جوکھیو کا قصور سچ لکھنا تھا

مقتول کے بھائی افضل نے کہا کہ ہمارا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ظالم وڈیروں اور زمینداروں کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔

سندھ کے وزیر برائے سماجی بہبود ساجد جوکھیو اور پارٹی کے دیگر رہنماؤں نے بھی متاثرہ خاندان سے ملاقات کی اور انہیں انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہاں سیاست کرنے نہیں بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس اور ملزمان کی گرفتاری کا یقین دلانے کے لیے آئے ہیں۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے مقتول کے بھائی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ذاتی طور پر ان سے ٹیلی فون پر بات کر کے انہیں انصاف کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی۔

مزید پڑھیں: میہڑ میں قتل کا معاملہ:ورثا کا پی پی پی رکن اسمبلی کی گرفتاری کا مطالبہ

افضل نے کہا کہ سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے بھی ان سے بات کی ہے اور انہیں بتایا ہے کہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے پولیس کو ہدایت کی ہے کہ واقعے کے ذمے داران کو گرفتار کیا جائے۔

انہوں نے پیپلز پارٹی چیئرمین اور وزیراعلیٰ کی جانب سے واقعے کا نوٹس لیے جانے کو سراہتے ہوئے کہا کہ مبینہ قاتلوں کی گرفتاری تک احتجاج جاری رہے گا۔

جمعرات کی صبح میمن گوٹھ پولیس نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور دیگر کے خلاف 27 سالہ شخص کے قتل کرنے کا مقدمہ درج کیا کیونکہ انہوں نے رکن اسمبلی کے مہمانوں کو ضلع ٹھٹھہ میں تلور کے شکار سے روکنے کی کوشش کی تھی۔

مقتول کے بھائی کی شکایت پر درج ایف آئی آر میں بتایا گیا کہ ان کے بھائی گھگھر پھاٹک کے قریب سالار گوٹھ کے رہائشی تھے۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ اسمبلی: پی ٹی آئی اراکین کا ایوان میں 'منحرف ارکان پر حملہ'، شدید ہنگامہ آرائی

افضل نے بتایا کہ 2 نومبر کو ناظم علاقے میں موجود تھے جب چند غیرملکی پرندوں کی نایاب نسل کا شکار کرنے پہنچے، ان کے بھائی نے مہمانوں کو شکار سے روکنے کی کوشش کی اور واقعے کی ویڈیو بھی بنا لی جس کے بعد غیر ملکی وہاں سے چلے گئے۔

افضل نے مزید بتایا کہ اسی دن رات 11 بجے کے قریب رکن صوبائی اسمبلی جام اویس عرف گہرام نے ناظم کو بلایا۔

شکایت کنندہ نے بتایا کہ ان کے بھائی کو ملیر میں جام ہاؤس لے جایا گیا جہاں جام اویس، نیاز سالار، احمد اور دیگر نے اسے ڈنڈوں سے مارنا شروع کر دیا جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہو گیا۔

ایف آئی آر کے مطابق ناظم کی لاش جام ہاؤس کے مرکز یدروازے سے ملی۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی کے عملے سمیت 13 گارڈز گرفتار، شہریوں پر تشدد کی تفتیش شروع

ملیر کے ایس ایس پی عرفان بہادر نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا کہ خاندان نے قتل کے مقدمے میں پانچ افراد کو نامزد کیا تھا، ان میں سے دو کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور باقی ملزمان کو حراست میں لینے کی کوششیں جاری ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں