‘باقاعدہ منصوبہ بندی’: پولیس،انتخابی عملہ ڈسکہ ضمنی انتخاب سبوتاژ کرنے کے ذمہ دار قرار

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2021
پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی نے 93 ہزار 433 ووٹ حاصل کیے—فوٹو: فیس بک
پی ٹی آئی کے امیدوار علی اسجد ملہی نے 93 ہزار 433 ووٹ حاصل کیے—فوٹو: فیس بک

الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے-75 ڈسکہ میں ضمنی انتخاب کو منصوبہ بندی کے تحت سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری پولیس اور مقامی انتظامیہ سمیت الیکشن کے عہدیداروں پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘انہوں نے اپنے فرائض سے روگردانی کرتے ہوئے غیرقانونی ذمہ داروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی کا کردار ادا کیا’۔

الیکشن کمیشن نے رواں برس 19 فروری کو سیالکوٹ کے حلقہ این- اے 75 ڈسکہ میں ضمنی انتخاب میں دھاندلی سے متعلق انکوائری رپورٹ جاری کردی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ کے 'لاپتا' الیکشن عہدیداران سے متعلق جیو فینسگ رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش

واضح رہے کہ ڈسکہ میں ضمنی انتخاب میں کشیدگی، دھاندلی اور 20 سے زائد انتخابی عملہ غائب ہوگیا تھا جس کے بعد اس انتخاب کو متنازع قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا گیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے متنازع انتخاب کو ختم کرتے ہوئے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا جس کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تاہم عدالت عظمیٰ نے ای سی پی کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔

اپریل میں دوبارہ انتخاب ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار سیدہ نوشین افتخار نے ایک لاکھ 10 ہزار 75 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار علی اسجد ملہی نے 93 ہزار 433 ووٹ حاصل کیے تھے۔

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر (ڈی آر او) اور ریٹرننگ افسر (آر او) کی نااہلی کے باعث ڈسکہ الیکشن سبوتاژ ہوا اور وہ اپنے فرائض انجام دینے میں ناکام ہوئے۔

پنجاب کے جوائنٹ الیکشن کمشنر سعید گل کی جانب سے پاکستان الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کو بھیجی گئی رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘انتخابی عملے کے 20 عہدیداروں کے بیان کے مطابق انہیں جبری طور پر اٹھایا گیا اور نامعلوم مقام منتقل کردیا گیااور پولنگ افسران سے حقائق تبدیل کرادیے گئے’۔

انکوائری رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ‘نا اہل ڈی آر او اور آر او کو آئندہ کوئی انتظامی عہدہ نہ دیا جائے’۔

مزید پڑھیں: الیکشن کمیشن نے 'نتائج میں ردو بدل' والے پولنگ اسٹیشنز پر رپورٹ جمع کروادی

رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘ریٹرننگ افسران میں بروقت فیصلہ کرنے کا فقدان نظر آیا اور انتخاب کے دن پیش آنے والے واقعات سے پولیس اور انتظامیہ آگاہ تھے لیکن واقعات کی روک تھام کے لیےکوئی ٹھوس اقدامات نطر نہیں آئے’۔

متنازع انتخاب کے بارے میں کہا گیا کہ ‘الیکشن ڈیوٹی پر مامور محکمہ تعلیم کے ملازمین بھی اس عمل میں ملوث نکلے، سی ای او ایجوکیشن سیالکوٹ بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہے’۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر فرخندہ یاسمین نے اپنے گھر میں غیر قانونی اجلاس منعقد کیا جہاں ان کو حکومت کے حق میں ضمنی انتخات میں کام کرنے کی ہدایت کی گئی اور ووٹرز کو قومی شناختی کارڈ کی نقول پر ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دینے اور ووٹنگ کے دوران انہیں موصول ہونے والی ہدایات پر عمل کرنے کی ہدایت کی گئی’۔

رپورٹ میں ان کے خلاف فوجداری اور محکمانہ سخت کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

پولیس کا کردار

انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘پولیس افسران اور اہلکار غیر قانونی سرگرمیوں میں پوری طرح ملوث تھے، اور پولیس افسران نے الیکشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، 20 پریذائیڈنگ افسران کو دوسری جگہ منتقل کر کے نتائج تبدیل کرانے میں ملوث رہے ہیں’۔

یہ بھی پڑھیں: ڈسکہ ضمنی انتخاب: پولیس کو ڈنڈا اور گولی کے علاوہ کچھ نہیں آتا، سپریم کورٹ

سفارش کی گئی ہے کہ ڈسکہ کے 20 متنازع پولنگ اسٹیشنز پر تعینات پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی محکمانہ کاروائی کی جائے۔

انتخابی عملے کے مشکوک کردار کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا گیا کہ پریزائیڈنگ افسران سرکاری گاڑی کے بجائے نجی کار میں روانہ ہوئے اور دوران ڈیوٹی مختلف افراد سے فون پر بات کرتے رہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سینیئر اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر (ایس اے پی اوز) نے بھی اس متنازع عمل میں معاونت کی۔

کہا گیا کہ ‘ایس اے پی اوز کے بیان میں بے نقاب کیا گیا کہ پریزائیڈنگ افسران جان نے بوجھ کر دھاندلی شدہ بیگ کے ساتھ شاپنگ بھی رکھا’۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ‘پریزئیڈنگ افسران اور ایس اے پی اوز ، اکثر ڈرائیورز اور متعدد پولیس اہلکاروں کے بیانات پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) سے حاصل شدہ سی ڈی آر ڈیٹا سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہےپریزائیڈنگ افسران نے منصوبہ بندی کے تحت اپنے پولنگ اسٹیشنز چھوڑ دیے اور نجی گاڑیوں میں سیالکوٹ پہنچ گئے جہاں پہلے قلعہ کلر والا پولیس اسٹیشن، ساترا پولیس اسٹیشن، ڈی ایس پی کے دفتر، پسرور اور مریدکے وغیرہ میں ٹھہرے’۔

مزید پڑھیں: ڈسکہ ضمنی انتخاب کے حتمی نتائج کا اعلان، (ن) لیگ کامیاب

ڈسکہ کے متنازع ضمنی انتخاب کی انکوائری رپورٹ میں کہا گیا کہ ‘مذکورہ عملہ زوہرا ہسپتال سیالکوٹ کے قریب شہاب پورہ میں نامعلوم عمارت میں سات گھنٹوں سے زیادہ وقت تک قیام کیا اور اس کے بعد انہیں پولیس کی سیکیورٹی میں جیسروالا میں آراو کے دفتر لایا گیا ’۔

مزید بتایا گیا کہ ‘اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل تمام پریزائیڈنگ افسران کو ٹوئٹا ہائیس سے پولیس کی وین میں منتقل کردیا گیا تھا’۔

یہ بھی بتایا گیا کہ چند پریزائیڈنگ افسران اپنے پولنگ اسٹیشنز میں نتائج مرتب ہونے تک بیٹھے رہے جو وٹس ایپ یا اوریجنل نتائج جمع کرتے رہے۔

تبصرے (0) بند ہیں