جی ڈی پی کی 5.5 فیصد سے زائد شرح نمو معیشت کو نقصان پہنچائے گی، شوکت ترین

اپ ڈیٹ 06 نومبر 2021
مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کی بلند شرح سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ فائل فوٹو:اے پی پی
مشیر خزانہ کا کہنا ہے کہ اقتصادی ترقی کی بلند شرح سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔ فائل فوٹو:اے پی پی

کراچی: وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس کا احساس شاید نہ ہو لیکن معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، یہ اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ہمیں اسے اس سال 5.5 فیصد تک محدود کرنا پڑے گا، اقتصادی ترقی کی بلند شرح سے ملک کو نقصان پہنچے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو سی ایف اے سوسائٹی پاکستان کے سالانہ عشائیہ سے خطاب کرتے ہوئے شوکت ترین نے کہا کہ وہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) چاہتے ہیں کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 22-2021 کے دوران 5 فیصد سے 5.5 فیصد کی حدود میں رہے تاہم میں اس سال 6 فیصد ترقی دیکھنا پسند نہیں کروں گا، یہ ہماری معیشت کے لیے نقصان دہ ہونے والا ہے‘۔

ایک سوال کے جواب میں شوکت ترین نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کا ہدف 5 فیصد شرح نمو میں رکاوٹ نہیں ڈالے گا، ہماری ترقی میں کمی نہیں آ رہی ہے‘۔

شوکت ترین نے کہا کہ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ ’بہت سود مند بات چیت‘ کی ہے جس کے بارے میں لوگوں کو ’بہت جلد پتا چل جائے گا‘۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ آئی ایم ایف پروگرام ترقی کو ختم نہیں کرے گا، یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو آئی ایم ایف کے عام نسخے کے برعکس ہے جس میں حکومتی اخراجات میں کمی اور اعلیٰ شرح سود شامل ہے جو جی ڈی پی کی نمو کو کم کرتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ہم بہت زیادہ دور نہیں ہیں جو آئی ایم ایف ہم سے کروانا چاہتا ہے‘۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ آئی ایم ایف کے تجویز کردہ پالیسی اقدامات میں ٹیکس چھوٹ ختم کرنا، زیادہ آمدنی پیدا کرنا اور آمدنی میں اصلاحات اور دیگر ٹیکسز شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے انہیں بتایا کہ ہم وسعت پر یقین رکھتے ہیں، وہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم ترقی کریں لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ہم غیر پائیدار طریقے سے ترقی کریں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ 22-2021 کے لیے 5 فیصد کی ہدف سے زیادہ شرح نمو کا ثبوت یہ ہے کہ موٹر سائیکلوں کی فروخت ریکارڈ بلند ترین سطح پر ہے، بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کی نمو دوہرے ہندسوں میں ہے اور ٹیکس وصولی اپنے ہدف سے 230 ارب روپے اضافی ہے، اس رفتار سے ہم 60 کھرب روپے کی سطح کو عبور کر لیں گے، یہ درآمدات کی وجہ سے نہیں ہے، یہ چاروں جانب سے ترقی ہے، انکم ٹیکس میں بھی 32 فیصد اضافہ ہوا ہے، بجلی کے استعمال میں بھی 13 فیصد اضافہ ہوا ہے‘۔

شوکت ترین نے کہا کہ جہاں تک بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا تعلق ہے اس کی تعداد ’ابھی تک متوازن‘ ہے، تاہم اگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا رہے گا تو حکومت درآمدات کو روک دے گی کیونکہ وہ غیر پائیدار ترقی نہیں چاہتی۔

انہوں نے کہا کہ تین سے چار سالوں میں برآمدات کو 70-80 فیصد تک بڑھ جانا چاہیے، ہم آئی ٹی سیکٹر کو مراعات دے رہے ہیں تاکہ یہ 100 فیصد بڑھ سکے۔

انہوں نے مالیاتی شعبے پر تنقید کی کہ وہ معیشت کی ضروریات کو پورا نہیں کر رہا۔

انہوں نے کہا کہ تقریباً 85 فیصد قرض 9 شہروں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ اس کا تین چوتھائی کارپوریٹ سیکٹر کو جاتا ہے، ’یہ درست نہیں، ہمیں اسے ٹھیک کرنا ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں