لیبیا کی صدارتی کونسل نے وزیرخارجہ کو برطرف کردیا

07 نومبر 2021
لیبیا کی عبوری حکومت نے کونسل کا فیصلہ مسترد کردیا—فوٹو:اے ایف پی
لیبیا کی عبوری حکومت نے کونسل کا فیصلہ مسترد کردیا—فوٹو:اے ایف پی

لیبیا کی صدارتی کونسل نے انتظامی معاملات کی خلاف ورزی کے الزام پر وزیرخارجہ نجلہ منقوش کو برطرف کردیا۔

خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق صدارتی کونسل کے ترجمان نے کہا کہ کونسل نے وزیرخارجہ نجلہ منقوش کو برطرف کرکے انہیں ملک سے باہر جانے سے روک دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کے تحت تحقیقات، مشن کا لیبیا میں جنگی جرائم کا انکشاف

ترجمان نجوا واہبہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا میں نجلہ منقوش کی برطرفی کے حوالے سے گردش کرنے والی دستاویزات مصدقہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نجلہ منقوش کو خارجہ پالیسی میں کونسل سے مشاورت کیے بغیر اقدامات کرنے پر برطرف کردی اگیا ہے۔

لیبیا کی نیشنل یونیٹی کی عبوری حکومت نے کونسل کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے وزیراعظم کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ وزیرخارجہ اپنے فرائض انجام دیتی رہیں گی۔

حکومت کی جانب سے فیس بک پیج پر جاری بیان میں کہا گیا کہ صدارتی کونسل کے پاس انتظامی عہدیداروں کی تعیناتی یا برطرفی اور کسی کے خلاف تفتیش کرنے کا کوئی استحاق نہیں ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ یہ اختیارات براہ راست وزیراعظم کے پاس ہیں۔

لیبیا کا پولیٹکل فورم نے لیبیا میں پرامن روڈ میپ بنا کردیا تھا، جس کو اقوام متحدہ نے تشکیل دیا تھا، جس نے محمد مینفی کی قیادت میں انتخابات کے انعقاد تک تین رکنی صدارتی کونسل منتخب کی تھی۔

خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ وزیرخارجہ کی برطرفی کے بعد لیبیا کی حریف جماعتوں کے درمیان مخاصمت میں اضافہ ہوگا جہاں وہ کئی برسوں تک جنگ کے بعد متحد ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: لیبیا: کمانڈر خلیفہ حفتر نے حکومت کی جنگ بندی کو مسترد کردیا

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کے ادارے ہیومن رائٹس کونسل کے قائم کردہ انڈیپینڈنٹ فیکٹ فائنڈنگ مشن برائے لیبیا نےتحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ لیبیا میں 2016 سے جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف مجرمانہ اقدامات ہوئے، جس میں بچوں کو فوج میں بھرتی کرنا بھی شامل ہے۔

مشن نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جس کی وجہ سے اس بات پر یقین کیا جاسکتا ہے کہ لیبیا میں جنگی جرائم کا ارتکاب کیا گیا جبکہ جیلوں میں اور مہاجرین کے خلاف تشدد کو انسانیت سوز جرائم قرار دیا جاسکتا ہے۔

رپورٹ کی دستاویزات کے مطابق یہاں دشمنی کی وجہ سے بچوں کی بھرتی، جبری گمشدگی اور نامور خواتین کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔

مشن نے بتایا تھا کہ 2019 کے اواخر میں ترکی نے 15 سے 18 سال کے شامی بچوں کو فوج میں بھرتی کرنے اور حکومتی فورسز کے ساتھ لڑنے کیلئے سہولت فراہم کی۔

اقوام متحدہ کے تحت بنائے گئے مشن نے کہا تھا کہ افریقہ کے شمالی ملک میں بدامنی کے لیبیا کی معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں