میانمار میں شہریوں پر حملے انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، اقوام متحدہ

07 نومبر 2021
انہوں نے بتایا کہ 15 لاکھ سے زیادہ شواہد اکٹھے کیے ہیں جن کا تجزیہ کیا جا رہا ہے ’— فائل فوٹو:اے ایف پی
انہوں نے بتایا کہ 15 لاکھ سے زیادہ شواہد اکٹھے کیے ہیں جن کا تجزیہ کیا جا رہا ہے ’— فائل فوٹو:اے ایف پی

اقوام متحدہ کی تحقیقاتی کمیٹی نے انکشاف کیا ہے کہ فوج کی جانب سے یکم فروری کو آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے میانمار میں شہریوں پر بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے حملے کیے گئے ہیں جو انسانیت کے خلاف جرائم کے مترادف ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ نکولس کومجیان نے بتایا کہ میانمار کے لیے آزاد تحقیقاتی کمیٹی کو فوج کے قبضے کے بعد سے اب تک 2 لاکھ سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔

مزیدپڑھیں: میانمار میں فوج کے اقتدار کے 100 روز، ملک پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ

انہوں نے بتایا کہ 15 لاکھ سے زیادہ شواہد اکٹھے کیے ہیں جن کا تجزیہ کیا جا رہا ہے ’تاکہ میانمار میں سنگین بین الاقوامی جرائم کے ذمہ داروں کو احتساب کے دائرے میں لایا جا سکے۔

اس بات کا تعین کرتے ہوئے کہ عام شہریوں کے خلاف جرائم بڑے پیمانے پر اور منظم دکھائی دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ تفتیش کاروں نے تشدد کے کیسز دیکھے ہیں۔

کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ یہ ایک ہی وقت میں مختلف جگہوں پر ہو رہا تھا، جس سے ہمارے لیے یہ نتیجہ اخذ کرنا منطقی ہو گا کہ یہ ایک مرکزی پالیسی سے تھا۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار: فوجی بغاوت کیخلاف مظاہروں کے دوران ہلاکتوں کی تعداد 800 سے زائد ہوگئی

نکولس کومجیان نے کہا کہ ’ہم نے دیکھا کہ مخصوص گروہوں کو نشانہ بنایا گیا، ماورائے قانون گرفتاریوں ہوئیں اور اس میں یقیناً صحافی، طبی کارکن اور سیاسی مخالفین شامل ہیں۔

کومجیان نے کہا کہ ان کی ٹیم افراد، تنظیموں، کاروباروں اور حکومتوں سمیت مختلف ذرائع سے شواہد اکٹھے کر رہی ہے اور شواہد میں تصاویر، ویڈیوز، شہادتیں اور سوشل میڈیا پوسٹس شامل ہیں۔

کومجیان نے کہا ہم نے 2019 سے ہی فیس بک کے ساتھ رابطہ شروع کر دیا تھا اور وہ ہم سے باقاعدگی سے ملتے رہتے ہیں۔

مزیدپڑھیں: میانمار کے کیرن گوریلاز کا فوجی بیس پر قبضہ، حکومت کی جوابی کارروائی

انہوں نے کہاکہ ہمیں کچھ موصول ہوا ہے لیکن یقینی طور پر سبھی نہیں، جن کی ہم نے درخواست کی ہے تاہم ہم ان کے ساتھ بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں اور درحقیقت، مجھے امید ہے کہ ہم مزید معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے۔

نکولس کومجیان نے کہا کہ انسانی حقوق کی کونسل نے خصوصی طور پر تفتیش کاروں کو ہدایت کی کہ وہ میانمار کی روہنگیا مسلم اقلیت کے خلاف ہونے والے جرائم کی تحقیقات میں بین الاقوامی فوجداری عدالت کے ساتھ تعاون کریں اور اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے روہنگیا کے خلاف نسل کشی سے متعلق اںصاف کے لیے بین الاقوامی عدالت انصاف میں مقدمہ چلایا جائے۔

واضح رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے ملک میں منتخب سیاسی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور دیگر سیاست دانوں سمیت آنگ سان سوچی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔

مزیدپڑھیں: یورپی یونین نے میانمار کے جنرلز سمیت فوجی عہدیداروں پر پابندیاں عائد کردیں

فوج کے اس عمل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو تا حال جاری ہے، جس میں اب تک فورسز کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا، جس کے باعث متعدد مظاہرین ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔

منتخب اراکین پارلیمنٹ کے گروپ، جو روپوش ہیں، کی جانب سے ایک خفیہ پارلیمنٹ قائم کی گئی ہے جسے انہوں نے کمیٹی برائے پیئیڈونگسو ہلوٹو (چی آر پی ایچ) کا نام دیا ہے، جس کا مقصد فوجی حکومت کی مذمت کرنا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں