جماعت اسلامی کی پینڈورا پیپرز کیس کی انکوائری کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست

اپ ڈیٹ 09 نومبر 2021
میڈیا رپورٹس کے مطابق پینڈورا پیپرز میں کابینہ کے اعلیٰ ارکان، وزرا، میڈیا مالکان، فوجی افسران کے رشتہ داروں اور طاقتور تاجروں کے نام سامنے آئے ہیں۔  - فائل فوٹو:ڈان نیوز
میڈیا رپورٹس کے مطابق پینڈورا پیپرز میں کابینہ کے اعلیٰ ارکان، وزرا، میڈیا مالکان، فوجی افسران کے رشتہ داروں اور طاقتور تاجروں کے نام سامنے آئے ہیں۔ - فائل فوٹو:ڈان نیوز

اسلام آباد: جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی ہے جس میں ان پاکستانی شہریوں کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے احکامات کی درخواست کی گئی ہے جن کے نام حال ہی میں لیک ہونے والے پنڈورا پیپرز میں سامنے آئے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق موجودہ پٹیشن اس سے قبل دائر کی گئی درخواست کا تسلسل ہے جو سپریم کورٹ میں بھی پیش کی گئی تھی جس میں 436 پاکستانی افراد کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا جن کی شناخت 2016 میں پاناما پیپرز لیکس میں سامنے آئی تھی۔

امیر جماعت اسلامی کی جانب سے ایڈووکیٹ محمد اشتیاق احمد راجا کے توسط سے پیش کی گئی تازہ درخواست میں استدلال کیا گیا کہ معاملے کی تحقیقات کا عمل حکومت کو شروع کرنا تھا تاہم پینڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے افراد کے ناموں کو نہ حکومت تسلیم کررہی ہے نہ ہی انہوں نے اب تک کوئی کارروائی تجویز کی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پینڈورا پیپرز میں کابینہ کے اعلیٰ ارکان، وزرا، میڈیا مالکان، فوجی افسران کے رشتہ داروں اور طاقتور تاجروں کے نام سامنے آئے ہیں۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز میں کن کن پاکستانیوں کے نام شامل ہیں؟

انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کی جانب سے جاری کیے گئے دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ چند لوگ خفیہ طور پر کئی آف شور کمپنیوں اور ٹرسٹوں کے مالک ہیں جن میں کروڑوں ڈالر کی پوشیدہ دولت موجود ہے۔

جماعت اسلامی کی پٹیشن میں کہا گیا کہ ’جہاں اسی طرح کی ایک درخواست پہلے بھی اس عدالت کے سامنے زیر التوا ہے وہیں درخواست گزار سپریم کورٹ سے انکوائری/تفتیش کے لیے حکومت کو احکامات جاری کرنے کا مطالبہ کرتا ہے‘۔

اس میں کہا گیا ہے کہ پینڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے افراد کے ناموں کے بارے میں معلومات شائع کی گئی ہیں جن میں متعدد افراد کے ناموں کا انکشاف کیا گیا ہے۔

درخواست دائر کرنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سراج الحق نے افسوس کا اظہار کیا کہ اپوزیشن جماعتیں پینڈورا پیپرز میں جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں ان کے خلاف تحقیقات کے لیے کوئی آواز اٹھانے میں ناکام رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پینڈورا پیپرز' کیا ہیں؟

انہوں نے پاکستان سے رقوم کی بیرون ممالک منتقلی کے ذمہ داروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے لیے ملک میں احتساب کا کوئی ٹھوس نظام نہ ہونے پر بھی افسوس کا اظہار کیا۔

انہوں نے یاد دلایا کہ جماعت اسلامی ان اولین جماعتوں میں سے ایک تھی جس نے پاناما پیپرز آنے پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا جس میں درخواست کی گئی تھی کہ ان تمام افراد کے خلاف انکوائری شروع کی جائے جن کا نام اس میں آیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ تاہم عمران خان بطور چیئرمین پی ٹی آئی، جنہوں نے احتساب کے لیے عدالت عظمیٰ میں بھی ایسی ہی ایک درخواست دائر کی تھی، نے صرف سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نشانہ بنایا اور انہیں متحدہ عرب امارات کے اقامہ رکھنے کے الزام میں نااہل قرار دیا گیا۔

سراج الحق نے کہا کہ پینڈورا پیپرز میں تقریباً 700 افراد کے نام آئے تھے جن کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات شروع کی جانی چاہئیں۔

انہوں نے کہا کہ شوگر مافیا نے قومی خزانے کو 184 ارب روپے کی خطیر رقم سے محروم کیا جبکہ گندم کے آٹے کے اسکینڈل میں ریاست کو 220 ارب روپے کا ایک اور نقصان اٹھانا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ فہرست یہیں ختم نہیں ہوتی، پیٹرولیم اسکینڈل سے بھی ملک کو مزید 25 ارب روپے، توانائی کے بحران سے 350 ارب روپے اور ایل این جی کے معاملے پر 100 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ملک کے وسائل پر اشرافیہ کا قبضہ ہے جبکہ عام لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز اور پاکستانی

یہ اس طرح کی دوسری درخواست ہے کیونکہ اس سے قبل ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل آف پاکستان (ٹی آئی پی)، جو کہ بدعنوانی کے خلاف ایک اتحاد ہے، نے 16 اکتوبر کو پینڈورا پیپرز اور پاناما پیپرز میں نامزد پاکستانی شہریوں کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، جس میں انہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ آف شور کمپنیوں میں کی گئی سرمایہ کاری غیر قانونی طریقوں سے حاصل نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ان کا نام اس سے ختم کیا جائے۔

ٹی آئی پی کے منیجنگ ڈائریکٹر سید عادل گیلانی کی طرف سے ایڈووکیٹ حشمت حبیب نے درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ وہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو انکوائری شروع کرنے کا حکم دے اور اس بات کا تعین کرے کہ آیا جن افراد کے نام پینڈورا پیپرز اور پاناما پیپرز میں سامنے آئے تھے انہوں نے آف شور کمپنیوں کو رقوم کی منتقلی کے دوران کسی غلط کام کا ارتکاب کیا یا اس میں ملوث رہے یا نہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ ایف بی آر کو ایسے افراد کو دستاویزی ثبوت کے ساتھ وضاحت پیش کرنے کی ہدایت بھی کی جائے کہ سرمایہ کاری کی گئی رقوم کے ذرائع تمام قانونی دفعات پر عمل کرتے ہوئے پاکستان سے آف شور کمپنیوں کو بھیجے گئے اور کوئی گرے چینل استعمال نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایسے پاکستانی شہریوں کے غیر ملکی اثاثے جو اس طرح کے لین دین کا جواز پیش نہیں کر سکتے، ایف بی آر کو تین ماہ کے اندر فوری طور پر منجمد کر دینا چاہیے، اس کے علاوہ ان اثاثوں کی بازیابی کے لیے قانونی کارروائی شروع کرنا چاہیے جیسا کہ اقوام متحدہ کے کنونشن میں تجویز کیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں