کورونا سے زیادہ بیمار افراد میں طویل المعیاد اثرات کا خطرہ ہوتا ہے، تحقیق

09 نومبر 2021
ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں بیماری کی طویل المعیاد اثرات کا تسلسل برقرار رہنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بات آسٹریلیا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

موناش یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے سنگین حد تک بیمار رہنے والے ہر 5 میں سے ایک مریض 6 ماہ میں چل بسا جبکہ بیماری کو شکست دینے والے لگ بھگ 40 فیصد مریضوں کو کسی نئی معذوری کا سامنا ہوا۔

اس تحقیق میں 6 مارچ سے 4 اکتوبر 2020 کے دوران کووڈ کے باعث آئی سی یو میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں اموات، معذوری اور کام پر واپسی کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں شامل 212 میں سے 43 (20.3 فیصد) مریض بیماری کو شکست دینے کے بعد 6 ماہ کے اندر انتقال کرگئے۔

اسی طرح 108 میں سے 43 (38.9 فیصد) افراد نے کسی قسم کی ایک معذوری کو رپورٹ کیا۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بیماری کو شکست دینے والے 71.3 فیصد مریضوں نے علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات، جسمانی مضبوطی میں کمی، تھکاوٹ، سردرد اور سونگھنے یا چکھنے کی حسوں سے محرومی کے تسلسل کو رپورٹ کیا۔

تحقیق کے مطابق ان مریضوں کی زندگی اور صحت کے معیار میں ہر شعبے میں نمایاں کمی آئی۔

مگر زیادہ تر نے نقل و حرکت (33.9 فیصد)، معمول کی سرگرمیوں (43.2 فیصد) اور درد (34.2 فیصد) جیسے نئے مسائل کو رپورٹ کیا جبکہ 33.3 فیصد کو دماغی افعال میں تنزلی کا سامنا ہوا۔

20.2 فیصد افراد نے ذہنی بے چینی، 20 فیصد نے ڈپریشن اور 18.4 فیصد نے پی ٹی ایس ڈی (کسی طرح کے صدمے کے بعد ذہن پر مرتب اثرات) کو رپورٹ کیا۔

ہر 10 میں سے ایک فرد کو خراب صحت کے باعث ملازمت سے محرومی کا سامنا ہوا۔

اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 61 سال تھی جبکہ 58 فیصد مرد تھے جو پہلے سے ذیابیطس یا موٹاپے جیسے امراض کا سامنا کررہے تھے۔

تحقیق میں شامل 57 فیصد افراد کو مکینکل وینٹی لیٹر سپورٹ کی ضرورت پڑی تھی۔

محققین نے بتایا کہ چونکہ کووڈ 19 ایک نیا مرض ہے تو اس کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد اثرات بتدریج سامنے آرہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ جو لوگ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہوتے ہیں ان کی طبی اسکریننگ کا عمل جاری رہنی چاہیے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے کریٹیکل کیئر میں شائع ہوئے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں