سی پیک کے 6 منصوبوں کی انشورنس کے لیے بیجنگ سے مدد طلب

اپ ڈیٹ 10 نومبر 2021
پاکستان نے چین سے 13 ارب ڈالر کے انشورنس کور کو منظور کرنے کے لیے مداخلت کی درخواست کی — فائل فوٹو:جی ای مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ترکی
پاکستان نے چین سے 13 ارب ڈالر کے انشورنس کور کو منظور کرنے کے لیے مداخلت کی درخواست کی — فائل فوٹو:جی ای مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور ترکی

اسلام آباد: پاکستان نے چینی حکومت سے چائنا ایکسپورٹ اینڈ کریڈٹ انشورنس کارپوریشن (سائنوشیور) کے ترجیحی بنیادوں پر توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کے تقریباً 13 ارب ڈالر کے انشورنس کور کو منظور کرنے کے لیے مداخلت کی درخواست کی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چینی سرکاری بیمہ کمپنی ’سائنوشیور‘ کو تمام غیر ملکی سرمایہ کاری اور قرضوں کو انڈر رائٹ کرنا ہے تاہم وہ چین ۔ پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت 3 ہزار 500 میگاواٹ سے زیادہ کے 6 بڑے توانائی منصوبوں سے تقریباً 5 ارب ڈالر کے انشورنس کور روک رہی ہے۔

اسے کراچی سے پشاور تک ایک ہزار 733 کلومیٹر کے ریلوے لائن، مین لائن-1 کے لیے 8 سے 9 ارب ڈالر کا انشورنس کور بھی انڈر رائٹ کرنا ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک خالد منصور نے صحافیوں کو بتایا کہ انہوں نے یہ معاملہ اسلام آباد میں چین کے سفیر کے ساتھ اٹھایا ہے اور ان کی حمایت کے ساتھ قومی ترقی اور اصلاحاتی کمیشن (این ڈی آر سی) کے وائس چیئرمین کو خطوط لکھے ہیں تاکہ اس کے حل کے لیے مداخلت کی جائے۔

مزید پڑھیں: سی پیک صرف چین نہیں سب کیلئے ہے، معاون خصوصی وزیراعظم

ان کا کہنا تھا کہ حکمت عملی کے لحاظ سے اہم منصوبوں سے متعلق تمام امور کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا جن میں ایم ایل ون اور توانائی کے چھ منصوبے جن میں گوادر، کروٹ، کوہالہ اور آزاد پتن، تھر بلاک 6 اور تھل نووا پاور پراجیکٹس کے علاوہ قائد اعظم سولر پاور پراجیکٹ شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے چھ توانائی منصوبوں کی مالیاتی بندش اور ایم ایل ون پروجیکٹ کے لیے ٹرم شیٹ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے مسائل کے حل کے لیے این ڈی آر سی کو دو الگ الگ خطوط لکھے ہیں، پاکستان اور چین کے درمیان دوستانہ تعلقات کی نوعیت ایسی ہے کہ ان کی کمپنیوں نے پاکستان سے بھاری واجب الادا وصولیوں کے باوجود کبھی حکومتی گارنٹی طلب نہیں کی‘۔

خالد منصور نے کہا کہ چینی قرض دہندگان مندرجہ بالا منصوبوں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن سائنوشیور کو انشورنس پالیسی دینا ہوگی، ان میں سے بہت سے منصوبے پہلے ہی ایکویٹی سرمایہ کاری کے ساتھ آگے بڑھ چکے ہیں اور قرض کے حصے کے لیے تاخیر نہیں کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ان منصوبوں کے لیے نظرثانی شدہ کمرشل آپریشنز کی تاریخوں میں ایک جامع انداز میں توسیع فراہم کرنے پر بھی غور کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاور سیکٹر میں چینی کمپنیوں کے پاس 250 ارب روپے کی واجب الادا رقم تھی اور سائنوشیور مزید قرضوں کے لیے انڈر رائٹنگ پالیسی کو روکے ہوئے ہے۔

انہوں نے کہا کہ این ڈی آر سی کو ایک خط لکھا گیا تھا تاکہ سائنوشیور پر زور دیا جائے کہ وہ توانائی کے 6 منصوبوں کو انڈر رائٹ کرے۔

یہ بھی پڑھیں: سی پیک پر کام سست نہیں ہوا، اسد عمر کی یقین دہانی

اسی طرح ایم ایل ون پروجیکٹ پر این ڈی آر سی سے فنانسنگ کی ٹرم شیٹ سے متعلق زیر التوا مسائل کو حل کرنے کو کہا گیا۔

پاکستان پہلے ہی اپنا منصوبہ پیش کر چکا ہے اور اب قرض دہندہ کی جانب سے ٹرم شیٹ کا انتظار ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم ایل ون کی لاگت کا تخمینہ ایک قابل فزیبلٹی اسٹڈی کے ذریعے 9 ارب 20 لاکھ ڈالر لگایا گیا تھا جسے نظرثانی شدہ پی سی ون میں 6 ارب 80 کروڑ ڈالر کردیا گیا تھا جس نے چین کو حیران کردیا کیونکہ پاکستانی فریق نے اس منصوبے سے ہنگامی اور حفاظتی لاگت کو ہٹا دیا تھا۔

چینیوں کی رائے ہے کہ لاگت کا تخمینہ کم لگایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اب چینی معروف کمپنیوں کو بولی لگانے کی تجویز دی ہے، ’وہ ایم ایل ون کی فنڈنگ کے اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے ہیں اور جلد ہی آپ اس منصوبے کے بارے میں اچھی خبر سنیں گے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں