نواز شریف، مریم نواز کے ٹرائل سے متعلق آڈیو کلپ جعلی ہے، سابق چیف جسٹس

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2021
آڈیو کلپ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز
آڈیو کلپ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے—فائل فوٹو: ڈان نیوز

سابق چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور نائب صدر مریم نواز کے ٹرائل سے متعلق متنازع آڈیو کلپ کی تردید کردی۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آڈیو کلپ ’جعلی‘ ہے اور میں نے آڈیو کال میں موجود شخص سے کبھی بات نہیں کی۔

مزید پڑھیں: کسی کے کہنے یا کسی ادارے کے دباؤ پر کبھی کوئی فیصلہ نہیں دیا، چیف جسٹس پاکستان

واضح رہے کہ چند ہفتوں میں سابق چیف جسٹس کی یہ دوسری تردید ہے۔

آڈیو کلپ کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس کو سنا جاسکتا ہے کہ ’مجھے اس کے بارے میں تھوڑا دوٹوک ہونے دو، بدقسمتی سے یہاں یہ ادارے ہیں جو حکم دیتے ہیں، اس کیس میں ہمیں میاں صاحب (نواز شریف) کو سزا دینی پڑے گی، (مجھے) کہا گیا ہے کہ ہمیں عمران صاحب (عمران خان) کو (اقتدار) میں لانا ہے‘۔

انہوں نے مبینہ طور پر مزید کہا کہ ’سزا تو دینی ہی پڑے گی‘۔

لائن کی دوسری طرف موجود آدمی کہتا ہے کہ ’نواز کی بیٹی مریم نواز سزا کی مستحق نہیں ہیں‘، تو مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ان سے کہتے ہیں کہ ’آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: نظرثانی کیس: چیف جسٹس کے عہدے کو مفادات کے ٹکراؤ کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے، جسٹس عیسیٰ

آڈیو کلپ میں مبینہ طور پر ثاقب نثار کو یہ کہتے سنا گیا کہ ’میں نے اپنے دوستوں سے بات کی کہ اس بارے میں کچھ کیا جائے لیکن وہ نہیں مانے، عدلیہ کی آزادی نہیں رہے گی، اس لیے رہنے دیں‘۔

آڈیوکلپ سے متعلق مذکورہ انکشاف فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ نے کیا، اس آڈیو کلپ کی جانچ امریکا کی ایک معروف فرم نے کی جو ملٹی میڈیا فرانزک میں مہارت رکھتی ہے۔

فیکٹ فوکس کے مطابق ’گریٹ ڈِسکوری کے پاس ماہرین کی ایک ٹیم ہے اور ان کے پاس ثبوتوں کا تجزیہ کرنے اور انہیں بطور ثبوت امریکی عدالتوں کے سامنے گواہی دینے کا طویل تجربہ ہے‘۔

فیکٹ فوکس کے مطابق فرم کی تجزیاتی رپورٹ آڈیو کلپ کی تصدیق کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ ’اس آڈیو میں کسی بھی قسم کی ترمیم نہیں کی گئی ہے‘۔

مزید پڑھیں: جب تک ججز مکمل آزاد اور دباؤ سے بالاتر نہ ہوں، انصاف ممکن نہیں، چیف جسٹس

فیکٹ فوکس رپورٹ میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے کبھی بھی احتساب عدالت کے کسی جج سے نواز شریف یا مریم نواز کے خلاف فیصلہ سنانے کا حکم دینے کے لیے رابطہ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’میں ایسا کیوں کروں گا؟ مجھے نواز شریف سے کوئی رنجش نہیں ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سابق چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان آرمی یا انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) سے کسی نے بھی ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کیس کے حوالے سے دباؤ ڈالا۔

آڈیو کلپ سے سب ظاہر ہوگیا، شہباز شریف

علاوہ ازیں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبا زشریف نے دعویٰ کیا کہ آڈیو کلپ سے ظہار ہوگیا کہ نواز شریف اور مریم نواز کو سیاسی دوڑ سے دور رکھنے کے لیے وسیع پلاننگ کی گئی۔

انہوں نے ٹوئٹر پر کہا کہ ’وقت آگیا ہے کہ جو غلط عمل ان پر مسلط کردیے گئے ان کو درست کردیا جائے، قوم عدلیہ کی جانب دیکھ رہی ہے‘۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے فیکٹ فوکس اسٹوری میں شامل فرانزک رپورٹ کے اسکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ ’رپورٹ کارڈ موجود ہے‘۔

مبینہ آڈیو کلپ کو ’سنگین چیزیں‘ قرار دیتے ہوئے سیکریٹری جنرل احسن اقبال نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے اپنی پوزیشن کی وضاحت طلب کی۔

انہوں نے کہا کہ ’یہ ٹیپس اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اسلام آباد میں کھلا راز کیا تھا‘۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما پرویز رشید نے کہا کہ ’جو آج اپنی آواز کو پہچاننے سے معذوری ظاہر کر رہا ہے وہ کل اپنے لکھے فیصلوں سے بھی مُکر جاۓ گا‘۔

آڈیو کلپ کی صداقت پر سوال اٹھاتے ہوئے اور یہ بتاتے ہوئے کہ کس طرح کے کلپس بنائے جا سکتے ہیں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک اور آڈیو کلپ شیئر کی جس میں نواز شریف سے ملتی جلتی آواز کو خود پر عجیب و غریب تنقید کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔

متنازع حلف نامہ

خیال رہے کہ 15 نومبر کو انگریزی روزنامے ’دی نیوز‘ میں شائع ہونے والی صحافی انصار عباسی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا محمد شمیم نے ایک مصدقہ حلف نامے میں کہا تھا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو ہدایت دی تھی کہ سال 2018 کے انتخابات سے قبل کسی قیمت پر نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہیں ہونی چاہیے۔

مبینہ حلف نامے میں رانا شمیم نے دعویٰ کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان 2018 میں چھٹیاں گزارنے گلگت بلتستان آئے تھے اور ایک موقع پر وہ فون پر اپنے رجسٹرار سے بات کرتے ’بہت پریشان‘ دکھائی دیے اور رجسٹرار سے ہائی کورٹ کے جج سے رابطہ کرانے کا کہا۔

رانا شمیم نے کہا کہ ثاقب نثار کا بالآخر جج سے رابطہ ہوگیا اور انہوں نے جج کو بتایا کہ نواز شریف اور مریم نواز انتخابات کے انعقاد تک لازمی طور پر جیل میں رہنے چاہیئں، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو ثاقب نثار پرسکون ہو گئے اور چائے کا ایک اور کپ طلب کیا۔

مزید پڑھیں: ’پاناما جے آئی ٹی میں خفیہ ایجنسیوں کے نمائندوں کو چوہدری نثار، نواز شریف نے شامل کروایا‘

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

تاہم ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’اس وقت انہوں نے اپنی مدت میں توسیع کے متعلق شکوہ کیا جبکہ ان کی ان دعووں کے پیچھے کوئی بھی وجہ ہوسکتی ہے‘۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات منظرِ عام پر آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کر کے 16 نومبر کو پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

بعدازاں مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے معاملے میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے معاملے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا اور سوال کیا تھا کہ اگر نواز شریف جیل جا سکتے ہیں تو ثاقب نثار کیوں نہیں جا سکتے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں