افغانستان کا بینکاری نظام تباہ ہونے کا خدشہ ہے، اقوام متحدہ

اپ ڈیٹ 22 نومبر 2021
انہوں نے مزید کہا کہ بغیر بینکاری سسٹم کے کچھ بھی نہیں ہوسکتا— فائل فوٹو: رائٹرز
انہوں نے مزید کہا کہ بغیر بینکاری سسٹم کے کچھ بھی نہیں ہوسکتا— فائل فوٹو: رائٹرز

اقوام متحدہ نے افغانستان کے بینکوں سے متعلق ہنگامی بنیادوں پر تحقیقات کرنے پر زور دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ شہریوں کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی نہ کرنا، رقم جمع نہ ہونا اور نقد کی لیکویڈیٹی کی وجہ سے مالیاتی نظام چند مہینوں کے اندر اندر تباہ ہوسکتا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان کے بینکاری اور مالیاتی نظام سے متعلق اقوام متحدہ کی تین صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام ’ یو این ڈی پی‘ کا کہنا ہے کہ بینکاری نظام کے بحران سے معیشت پر ’بہت زیادہ‘ منفی سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔

15 اگست کو مغرب کی حمایت یافتہ حکومت ہٹانے اور طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد غیر ملکی ترقیاتی تعاون کے اچانک روک دیا گیا جس کے بعد معیشت بحران کا شکار ہے اور بینکاری کے نظام پر دباؤ ڈال رہی ہے۔

یاد رہے کہ ملک میں بینک سے ہفتہ وار رقم نکالنے کی حد مقرر کردی گئی ہے تاکہ بینکوں سےتیزی سےرقم نکالنے کے عمل کو روکا جاسکے۔

یو این ڈی پی نے رپورٹ میں کہا کہ ’افغانستان کا مالیاتی اور بینک ادائیگی کا نظام بے ترتیبی کا شکار ہے، بینکوں کو درپیش مسائل جلد از جلد حل کیا جائے تاکہ افغانستان کی پیداواری صلاحیت بڑھایا جائے اور بینکاری کے نظام کو تباہ ہونے سے روکا جائے‘۔

مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان کے مرکزی بینک کا نیا عبوری سربراہ مقرر کردیا

طالبان رہنماؤں کے لیے بین الاقوامی پابندیوں کے باعث بحران سے بچنے کا راستہ نکالنا مشکل عمل ہے۔

یو این ڈی پی کے سربراہ عبداللہ الدرداری نے ’رائٹرز‘ کو بتایا کہ ’ہمیں ایسا راستہ تلاش کرنا ہوگا جس میں یہ بات یقینی بنائے جائے کہ اگر ہم بینکاری کے نظام کے لیے تعاون کر رہے ہیں تو ہم طالبان کی حمایت نہیں کر رہے ہوں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بہت پچیدہ حالات میں ہیں اس لیے ہمیں تمام تر ممکنہ اختیارات پر غور کرتے ہوئے دائرہ کار سے باہر جاکر سوچنا ہوگا‘۔

انہوں نے کہا کہ ’تین مہینے پہلے جو ناقابل تصور ہوا کرتا تھا اب اس پر سوچنے کا عمل شروع کرنا ہے‘۔

طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے بھی افغانستان کا بینکاری کا نظام تباہ حالی کا شکار تھا، لیکن اس وقت ترقیاتی امداد فراہم کی جارہی تھی۔

افغانستان کے اربوں ڈالرز کے اثاثے بیرون ملک میں منجمد ہیں، اقوام متحدہ اور امدادی گروپ اب ملک میں کافی رقم کے فراہم کرنے کے جدوجہد کر رہی ہیں۔

’شہری رقم چھپا رہے ہیں‘

یو این ڈی پی نے بینکاری کے نظام کو محفوظ کرنے کے لیے تجاوز پیش کیں جس میں رقم جمع کروانے کی بیمہ اسکیم، مختصر دورانیہ اور درمیانی مدت کے لیے ضروریات کی لیکویڈیٹی کے اقدامات سمیت کریڈٹ کی ضمانت اور قرض کی ادائیگی میں تاخیر کے اختیارات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں بنیادی مسئلہ بھوک نہیں تنخواہوں کی ادائیگی ہے، ریڈ کراس

یو این ڈی پی رپورٹ میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مانیٹرنگ فنڈز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ’بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعاون اور افغانستان کے مالیاتی نظام کے ساتھ وسیع تجربہ اس عمل کے لیے اہم ہے‘۔

اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان کے اقتدار سنبھالنے سے قبل بھی افغانستان میں معاشی بحران کے حوالے سے بارہا خبردار کرتے ہوئے اسے مزید مہاجرین کے بحران کا ایندھن قرار دیا۔

یو این ڈی پی کا کہنا ہے کہ اگربینکنگ سسٹم ناکام ہوگیا تو اسے دوبارہ تعمیر کرنے میں دہائیاں لگ جائیں گی۔

یو این ڈی پی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ موجودہ رجحان اور افغانستان کی 40 فیصد رقم جمع کروانے کی پابندی سال کے اختتام تک نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بینکوں نے نئی رقم کی توسیع کے عمل کو روک دیا ہے اور ادا نہ کیے گئے قرضوں کی تعداد تقریباً ڈبل ہوگئی ہے جو گزشتہ سال ستمبر 2020 میں 57 فیصد تھا۔

عبداللہ الدرداری نے کہا کہ ’اگر قرضوں کی ادائیگی کی یہ شرح جاری رہی تھی تو آئندہ چھ ماہ میں بینک اپنے کام نہیں کر پائیں گے‘ اور مجھے اسی عمل کی توقعات ہیں۔

لیکویڈیٹی بھی ایک مسئلہ ہے، افغانستان کے بینک زیادہ تر امریکی ڈالر کی ترسیل پر انحصار کر رہے تھے جس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم کا عالمی برادری پر افغانستان کے اثاثے بحال کرنے پر زور

عبداللہ الدرداری کا کہنا تھا کہ جب وہ مقامی افغانی کرنسی پر آتے ہیں تو افغان معیشت میں اس کی وسعت 4 ارب ڈالر ہے، اور صرف 5 لاکھ ڈالر گردش میں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’باقی رقم چھپا کر رکھی ہوئی ہے کیونکہ لوگ خوف زدہ ہیں‘۔

عبداللہ الدرداری نے خبردار کیا کہ ’اقوام متحدہ افغانستان میں قحط سے بچنے کا راستہ فراہم کر رہی ہے اور بینکاری کے بحران کے نتائج تجارت پر بھی مرتب ہوں گے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ افغانستان نے گزشتہ سال 7 ارب ڈالر کا سامان اور مصنوعات درآمد کی تھیں جس میں بیشتر کھانے کی اشیا شامل تھیں اور اگر تجارت کی مالیت نہیں ہوئی تومداخلت مزید بڑھ جائے گی‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ بغیر بینکاری سسٹم کے کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔

تبصرے (0) بند ہیں