وزیراعظم عمران خان نے سوشل میڈیا پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے متعلق ‘قابل اعتراض جملے’ پوسٹ کرنے پر کابینہ ڈویژن کے سینئر جوائنٹ سیکریٹری کے خلاف تحقیقات کا حکم دےدیا۔

اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری الزامات پر بیان کے مطابق بی ایس- 21 کے افسر حماد شمیمی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم میں اپنے پیج پر پوسٹ کیا جو سول سرونٹ (ایفیشنسی اور ڈسپلن) رولز 2020 کی خلاف ورزی ہے۔

مزید پڑھیں: سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال سے روک دیا گیا

نوٹیفکیشن میں سینئر بیوروکریٹ کی مبینہ پوسٹ اردو میں بھی دی گئی ہے، جس میں انہوں نے کہا کہ ‘پی ٹی آئی اور طالبان میں ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ دونوں حکومت ملنے کے بعد سوچ رہے ہیں کہ اسے چلانا کیسے ہے’۔

اسٹبلشمنٹ ڈویژن سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا
اسٹبلشمنٹ ڈویژن سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا

انہوں نے مزید لکھا کہ ‘اور دونوں کی امیدوں کا مرکز بھی آبپارہ ہے’۔

اسٹبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے جاری ایک اور نوٹیفیکشن کے مطابق مذکورہ الزامات کی روشنی میں حماد شمیمی کے خلاف تحقیقات کے لیے ایک انکوائری کا حکم دے دیا گیاہے۔

انکوائری کےاحکامات میں کہا گیا ہے کہ ‘وزیراعظم نے اپنے اختیار کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کےڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) بی ایس –22 کے افسر ثنااللہ عباسی کو سینئر جوائنٹ سیکریٹری کابینہ ڈویژن اسلام آباد حماد شمیمی کے خلاف تحقیقات کے لیے انکوائری افسر مقرر کردیا ہے’۔

انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ تحقیقات 60 روز کے اندر مکمل کی جائے جبکہ انکوائری افسر تحقیقات مکمل ہونے کے بعد رپورٹ سات روز کے اندر حکام کو پیش کرے۔

سرکاری ملازمین پر سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے 25 اگست کو جاری نوٹی فکیشن میں سرکاری ملازمین کو سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ کوئی بھی سرکاری ملازم، حکومت کی اجازت کے بغیر کسی میڈیا پلیٹ فارم میں شرکت نہیں کر سکتا۔

یہ بھی پڑھیں: سرکاری دفاتر میں سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی ہوگی، آئی ٹی حکام

نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ ان ہدایات کا مقصد کسی سرکاری ادارے کی طرف سے حکومتی پالیسی پر عوامی ردعمل، خدمات میں بہتری کے لیے تجاویز لینے اور ان کی شکایات کے ازالے کے لیے سوشل میڈیا کے تعمیری اور مثبت استعمال کی حوصلہ شکنی نہیں ہے۔

تاہم ایسے ادارے اس بات کی پابندی کریں گے کہ ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے جارحانہ، نامناسب اور قابل اعتراض تبصروں کو باقاعدگی سے ہٹایا جائے۔

نوٹی فکیشن میں سرکاری ملازمین کو گورنمنٹ سرونٹس (کنڈکٹ) رولز 1964 کے تحت تفصیلی ہدایات دی گئی تھیں، ان رولز کے تحت سرکاری ملازمین کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سمیت مختلف میڈیا فارمز میں شرکت کی نگرانی کی جاتی ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ 'رولز کا رول 18 سرکاری ملازم کو کسی دوسرے سرکاری ملازم یا نجی شخص یا میڈیا سے سرکاری معلومات یا دستاویز شیئر کرنے سے روکتا ہے'۔

سرونٹس رولز کے رول 22 کا حوالہ دیتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے کہا تھا کہ یہ سرکاری ملازم کو میڈیا پر یا عوامی سطح پر کوئی بھی ایسا بیان یا رائے دینے سے روکتا ہے جس سے حکومت کی بدنامی کا خطرہ ہو۔

مزید پڑھیں: ترمیم شدہ سوشل میڈیا قوانین پر حکومت اور انٹرنیٹ کمپنیوں کے مابین تنازع

نوٹی فکیشن میں تمام سرکاری ملازمین کو خبردار کیا گیا تھا کہ کسی ایک یا زائد ہدایات کی خلاف ورزی بددیانتی کے مترادف ہوگی اور غفلت برتنے والے ایسے سرکاری ملازم کے خلاف سول سرونٹس (ایفی شینسی اینڈ ڈسپلن) رولز 2020 کے تحت تادیبی کارروائی کی جائے گی۔

کہا گیا تھا کہ ان حاضر سروس سرکاری ملازمین کے خلاف تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی جو اس سوشل میڈیا گروپ کے منتظم ہوں جس میں کسی طرح کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔

نوٹی فکیشن کے مطابق رولز 21، 25، 25 اے اور 25 بی سرکاری ملازمین کو پاکستان کے نظریے اور سالمیت یا کسی حکومتی پالیسی یا فیصلے کے خلاف خیالات کے اظہار سے روکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں