سابق جج شوکت عزیز نے چیف جسٹس کی تقریر کو ’اُمید کی کرن‘ قرار دے دیا

اپ ڈیٹ 25 نومبر 2021
اپنی درخواست میں سابق جج نے کہا کہ برطرفی کے خلاف ان کی اپیل اب ’عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس‘ میں تبدیل ہو گئی ہے — فائل/فوٹو:ڈان نیوز
اپنی درخواست میں سابق جج نے کہا کہ برطرفی کے خلاف ان کی اپیل اب ’عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس‘ میں تبدیل ہو گئی ہے — فائل/فوٹو:ڈان نیوز

تین سال قبل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے افسران کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے پر برطرف کیے جانے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے ’عدلیہ کبھی ڈکٹیشن نہیں لیتی‘ سے متعلق چیف جسٹس گلزار احمد کے حالیہ بیان کی تصدیق کے لیے اسے ’ٹیسٹ کیس‘ قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں جمع کرائی گئی دو صفحات پر مشتمل درخواست میں سابق جج نے کہا کہ چیف جسٹس کے حالیہ خطاب نے ان کے لیے امید کی کرن پیدا کردی کہ ’ان کے خلاف برطرفی کی اپیل میں دوسرے عوامل مزید متعلقہ نہیں رہیں گے جو اکتوبر 2018 سے زیر التوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: حکومت نے سابق جج شوکت عزیز صدیقی کے بیان کو 'بے بنیاد' قرار دے دیا

سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے ہفتے کے روز لاہور میں عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں چیف جسٹس کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں چیف جسٹس گلزار احمد نے ان الزامات کو مسترد کردیا تھا کہ کسی بھی ریاستی ادارے نے اپنی مرضی کے فیصلے دینے کے لیے عدلیہ پر دباؤ ڈالا تھا۔

اپنی درخواست میں سابق جج نے کہا کہ برطرفی کے خلاف ان کی اپیل اب ’عدلیہ کی آزادی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک ٹیسٹ کیس‘ میں تبدیل ہو گئی ہے۔

سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کی رائے اور 11 اکتوبر 2018 کے نوٹی فکیشن کے خلاف ان کی اپیل، جس کے تحت انہیں ہٹایا گیا تھا، اب بھی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔

ان کا حلف نامہ، جو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی سماعت کے دوران ان کے وکیل حامد خان نے پڑھ کر سنایا، عدالتی دفتر نے واپس کر دیا۔

حلف نامے میں سابق جج کی سینئر انٹیلی جنس افسران کے ساتھ ملاقاتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سابق جج شوکت عزیز صدیقی کا اپنے کیس کی جلد سماعت کیلئے چیف جسٹس کو خط

وفاقی حکومت نے 10 جون کو آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ ملاقاتوں کے بارے میں ان کے دعووں کو گمراہ کن اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے حلف نامے کی تردید کی۔

21 جولائی 2018 کو راولپنڈی کی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن میں اپنی تقریر میں شوکت عزیز صدیقی نے ’ریاستی اداروں‘، خاص طور پر آئی ایس آئی پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بنچوں کی تشکیل میں مداخلت کا الزام لگایا تھا۔

سابق جج کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست ان درخواستوں کے سلسلے کی کڑی ہے جس میں انہوں نے اپنے کیس کی جلد سماعت کا متعدد مرتبہ مطالبہ کیا۔

سپریم کورٹ کے 1980 کے رولز کے رول 6 کے تحت دائر تازہ درخواست میں یاد دلایا گیا ہے کہ رواں سال 11 جون کو پانچ ججوں کے بینچ نے مشاہدہ کیا تھا کہ اس مہینے کے اختتام سے پہلے بینچ کی دستیابی پر معاملہ دوبارہ درج کیا جائے لیکن ابھی تک کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔

مزید پڑھیں: شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ سے قبل کیس کا فیصلہ دے دیں گے، سپریم کورٹ

شوکت صدیقی نے بتایا کہ ان کی جانب سے جلد سماعت کے لیے متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں جب کہ انہوں نے 5 اگست کو ایک مراسلہ بھی لکھا تھا جس میں عدالت کو آگاہ کیا گیا تھا کہ اس معاملے میں طویل التوا انہیں اور ان کے اہل خانہ کے لیے مشکلات بڑھا دے گا۔

سپریم کورٹ کے دفتر نے سماعت کے لیے 3 مختلف تاریخیں تجویز کیں 12 اکتوبر، 3 نومبر اور 25 نومبر لیکن تینوں مواقع پر ’کچھ نامعلوم وجوہات‘ کی بنا پر مجوزہ تاریخوں سے کچھ دن پہلے ہی سماعت منسوخ کر دی گئی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ یہ مسئلہ عوامی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اپیل میں عدلیہ کی آزادی، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کے حوالے سے اہم سوالات اٹھائے گئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں