والد کا بیانِ حلفی ممکنہ طور پر برطانیہ کی نوٹری پبلک سے لیک ہوا، احمد حسن رانا

اپ ڈیٹ 01 دسمبر 2021
احمد حسن رانا کی لائیو ود عادل شاہزیب پروگرام میں گفتگو — اسکرین گریب
احمد حسن رانا کی لائیو ود عادل شاہزیب پروگرام میں گفتگو — اسکرین گریب

گلگت بلتستان کے سابق جج رانا شمیم کے بیٹے احمد حسن رانا نے کہا ہے کہ والد نے بیانِ حلفی کہیں جمع نہیں کروایا تھا، اگر وہ لیک ہوا ہے تو ممکنہ طور پر برطانیہ کی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام لائیو وِد عادل شاہزیب میں ان سے ان کے والد کے عدالت میں دیے گئے بیان کے بارے میں سوال کیا گیا کہ ان کا بیانِ حلفی سیلڈ تھا اور انہوں نے کوئی بیانِ حلفی میڈیا کو نہیں دیا تو یہ میڈیا کے پاس کس طرح پہنچا۔

جس پر رانا شمیم نے کہا کہ وہ اس کیس کے وکلا کے پینل میں ضرور شامل ہیں لیکن کیس کے مرکزی وکیل سینیئر قانون دان لطیف آفریدی ہیں، مجھے عدالت میں والد نے انہیں لے کر آنے کا حکم دیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت لطیف آفریدی کسی کیس میں مصروف تھے جس کی وجہ سے ہمیں تاخیر ہوگئی اور اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ختم ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: ابھی بیان حلفی نہیں دیکھا، اصل دستاویز جمع کرانے کیلئے وقت چاہیے، رانا شمیم

انہوں نے سماعت کے دوران ہونے والی کارروائی سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔

احمد حسن رانا نے رانا شمیم کے بیانِ حلفی کے بارے میں کہا کہ والد نے یہ بیانِ حلفی کہیں جمع نہیں کروایا، یہ اگر لیک ہوا ہے تو ممکنہ طور پر برطانیہ کی نوٹری پبلک سے لیک ہوا ہے۔

مزید وضاحت کرتے ہوئے احمد حسن رانا کا کہنا تھا کہ بیانِ حلفی کی نقل ضرور لیک ہوئی ہے لیکن اصل نہیں اور کاپی دیکھنے میں زیادہ واضح نہیں، اگر اس کا پرنٹ آؤٹ نکالا جائے تو وہ واٹس ایپ پر بھیجی گئی تصویر معلوم ہوتی ہے۔

سابق چیف جسٹس کے بارے میں سنجیدہ الزامات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں احمد حسن نے کہا کہ ان کے والد کی ساکھ کو اس وقت نقصان پہنچتا کہ جب وہ اپنے بیانِ حلفی سے مکر جاتے لیکن وہ اپنے بیان سے نہیں مکرے اور اس پر قائم ہیں اور کہا کہ بیانِ حلفی دیا ہے لیکن وہ برطانیہ میں رکھا ہے۔

مزید پڑھیں: سابق جج پر الزامات: انصار عباسی سمیت 4 افراد کو اظہارِ وجوہ کے نوٹسز جاری

اٹارنی جنرل کے عدالت میں دیے گئے بیان پر انہوں نے کہا کہ وہ ریاست کے وکیل ہیں جس کی چیخیں نکلی ہیں کیوں کہ موجودہ حکومت کی تشکیل کے تانے بانے ریاست سے جاملتے ہیں۔

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چونکہ ریاست کی چیخیں زیادہ نکل رہی ہیں اس لیے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہو کہ کیس کا سختی سے مقابلہ کرنا ہے تو وہ اپنی ذمہ داری ادا کر رہے ہیں مجھے ان سے کوئی گِلہ نہیں ہے۔

والد کا اصل بیانِ حلفی ملک واپس لانے سے متعلق سوال کے جواب میں احمد حسن رانا نے کہا کہ میرے آنے جانے کی کوئی ضرورت نہیں، والد صاحب خود جاکر یا کسی سے کہہ کر بھی اسے منگوا سکتے ہیں۔

مذکورہ معاملہ مسلم لیگ (ن) کے حق میں ہونے کے باوجود اسے عدالت نہ لے کر جانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس میں مسلم لیگ (ن) کا مؤقف ثابت ہوگیا ہے جنہوں نے کہا تھا کہ ہمیں انصاف چاہیے اور اگر وہ اس پر سیاست نہیں کر رہے تو ہمیں تو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس ثاقب نثار پر الزام، سابق جج رانا شمیم اسلام آباد ہائیکورٹ طلب

ان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اگر اس پر سیاست کرتی تو اسے آپ لوگ دوسرا رنگ دے دیتے ہیں، انہوں نے اپنے آپ کو اس معاملے سے صاف رکھتے ہوئے کہا کہ اس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔

ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ بیانِ حلفی آپ کی بہن کے بیٹے کے پاس بھی تھا تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور بتایا کہ میری بڑی بہن کے بیٹے جو بیرسٹر بن رہے ہیں یہ انہوں نے دیکھا ہوا ہے۔

تاہم انہوں نے اس بات کا امکان رد کردیا کہ یہ ان کے پاس سے لیک ہوا ہو اور کہا کہ ان کی اتنی مجال نہیں بلکہ میرے اندر بھی اتنی ہمت نہیں ہے کہ والد صاحب سے سوال کر سکوں۔

سماعت میں کیا ہوا تھا؟

خیال رہے کہ صحافی انصار عباسی کی خبر پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس کی 30 نومبر کو ہونے والے دوسری سماعت میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے اخبار کی خبر پڑھی اور نہ ہی انہیں بیانِ حلفی کا مواد یاد ہے۔

انہوں نے بتایا تھا کہ جب اسے سپر دستخط کیے وہ برطانیہ کے ایک لاکر میں رکھا ہوا ہے۔

یاد رہے کہ 10 نومبر 2021 کے بیانِ حلفی میں رانا شمیم نے مبینہ طور پر کہا تھا کہ سابق چیف جسٹس کے دورہ گلگت بلتستان کے موقع پر انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج کو کال کر کے کہا تھا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ 25 جولائی 2018 سے قبل ضمانت پر رہا نہ ہوسکیں۔

یہ بھی پڑھیں:رانا شمیم کے نواز شریف سے ’براہِ راست رابطے‘ ہیں، احمد حسن رانا

دورانِ سماعت رانا شمیم نے یہ بھی کہا کہ دی نیوز نے رپورٹ شائع ہونے کے بعد ان کا مؤقف حاصل کیا اور کہا کہ انہوں نے کسی دستاویز کی نقل نہیں فراہم کی تھی کیوں کہ ان کا بیانِ حلفی سر بہ مہر برطانیہ کے ایک لاکر میں موجود ہے جس کی چابی ان کے نواسے کے پاس ہے۔

بعدازاں عدالت نے انہیں 4 روز میں جواب داخل کرنے اور اصل بیانِ حلفی جمع کروانے کی ہدایت کی جو ان کے مطابق برطانیہ میں ہے۔

پس منظر

15 نومبر 2021 کو انگریزی روزنامہ ’دی نیوز‘ میں صحافی انصار عباسی کی خبر شائع ہوئی جس کی سرخی تھی کہ ثاقب نثار نے 2018 انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کی ہدایت کی۔

انگریزی اخبار ’دی نیوز‘ میں صحافی انصار عباسی کی تحقیقاتی رپورٹ میں سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے حوالے سے کہا گیا کہ انہوں نے مبینہ حلف نامے میں کہا کہ وہ اس بات کے گواہ ہیں کہ ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے جج کو کرپشن ریفرنسز میں نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت نہ دینے کی ہدایات دیں۔

مزید پڑھیں: ثاقب نثار نے نواز شریف،مریم نواز کو عام انتخابات کے دوران جیل میں رکھنے سے متعلق رپورٹ مسترد کردی

دستاویز کے مطابق اس موقع پر رانا شمیم نے ثاقب نثار کو بتایا نواز شریف کو جان بوجھ کر پھنسایا گیا ہے، جس پر سابق چیف جسٹس نے کہا کہ ’رانا صاحب، پنجاب کی کیمسٹری گلگت بلتستان سے مختلف ہے‘۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی سختی سے تردید کی اور رپورٹ کو ’خود ساختہ کہانی‘ قرار دیا تھا۔

اعلیٰ عدلیہ کے حوالے سے الزامات پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے رپورٹ لکھنے والے صحافی انصار عباسی، ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن، دی نیوز کے ایڈیٹر عامر غوری اور رانا شمیم کو توہینِ عدالت آرڈیننس کے تحت نوٹس جاری کردیے تھے۔

بعد ازاں 16 نومبر کو ہونے والے پہلی سماعت میں فریقین کو شو کاز نوٹسز جاری کر کے جواب طلب کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں