دوحہ مذاکرات: طالبان کا اثاثے غیر منجمد، امریکا کا مستقبل میں حملے نہ کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 02 دسمبر 2021
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی ٹیم نے امریکی شہریوں اور افغانوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جن کے ساتھ امریکا کا ’خصوصی عزم‘ ہے— فائل فوٹو: رائٹرز
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی ٹیم نے امریکی شہریوں اور افغانوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جن کے ساتھ امریکا کا ’خصوصی عزم‘ ہے— فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: رواں ہفتے قطر میں ہونے والے مذاکرات میں امریکا نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کی سرزمین مستقبل میں دہشت گرد حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی جبکہ طالبان نے افغان ریاست کے اثاثوں کو منجمد کرنے اور امریکی پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 29 اور 30 نومبر کو افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی نمائندے تھامس ویسٹ نے قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا۔

مزید پڑھیں: طالبان کا امریکی کانگریس سے اثاثے غیر منجمد کرنے، پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ

امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ امریکی وفد میں محکمہ خارجہ، خزانہ، یو ایس ایڈ اور انٹیلی جنس کمیونٹی کے نمائندے شامل تھے جبکہ طالبان کے وفد میں ان کی عبوری حکومت کے سینئر اہلکار اور ’پیشہ ورانہ ٹیکنوکریٹ‘ شامل تھے۔

واشنگٹن سے جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بات چیت ’امریکی قومی مفادات کو برقرار رکھنے‘ پر مرکوز تھی اور ’یہ مصروفیت امریکی اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر افغانستان پر عملی سفارت کاری کا تسلسل ہے‘۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے صحافیوں کو بتایا کہ ’امریکی وفد نے طالبان کی جانب سے اپنے عوامی عہد کو پورا کرنے کی اہمیت پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی سرزمین سے کسی کو بھی کسی ملک کے لیے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دیں گے‘۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی ٹیم نے امریکی شہریوں اور افغانوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا جن کے ساتھ امریکا کا ’خصوصی عزم‘ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا اور طالبان کے درمیان پہلے مذاکرات

امریکی مذاکرات کاروں نے تمام افغان شہریوں بشمول اس کی خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور ایک امریکی یرغمال مارک فریچس کی بحفاظت رہائی کا مطالبہ کیا۔

تاہم امریکی بیان میں کابل میں ایک ہمہ گیر حکومت کی تشکیل سے متعلق مطالبے کا ذکر نہیں کیا گیا۔

طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے کہا کہ دونوں فریقوں نے سیاسی، اقتصادی، صحت، تعلیم، سلامتی اور انسانی مسائل پر تبادلہ خیال کیا۔

عبدالقہار بلخی نے کہا کہ ’افغان فریق نے انہیں سیکیورٹی کے بارے میں یقین دہانی کرائی، افغان ذخائر کو فوری طور پر غیر مشروط طور پر منجمد کرنے، پابندیوں اور بلیک لسٹوں کے خاتمے اور انسانی ہمدردی کے مسائل کو سیاسی تحفظات سے منقطع کرنے پر زور دیا۔

انہوں نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کہا کہ مجموعی طور پر مذاکرات مثبت رہے اور دونوں فریقوں نے اس طرح کی ملاقاتوں کو آگے بڑھنے پر اتفاق کیا۔

امریکی بیان میں کہا گیا کہ دونوں فریقین نے افغانستان میں انسانی بحران پر بین الاقوامی برادری کے جاری اور فوری ردعمل پر بھی تبادلہ خیال کیا اور امریکی وفد نے آئندہ موسم سرما میں ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے لیے اقوام متحدہ اور انسانی ہمدردی کے اداروں کی کوششوں کی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔

مزیدپڑھیں: امریکا کی طالبان سے کابل میں سفارتخانے پر حملہ نہ کرنے کی اپیل

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکا اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے کہ امریکی پابندیاں افغان شہریوں کی امریکی حکومت اور بین الاقوامی برادری سے انسانی امداد حاصل کرنے کی صلاحیت کو محدود نہیں کرتی ہیں جبکہ ان کے اثاثوں کو منظور شدہ اداروں اور افراد کو دینے سے انکار کرتی ہے۔

امریکی محکمہ خزانہ نے افغانستان کے لوگوں کو انسانی امداد کے مسلسل بہاؤ اور بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے والی دیگر سرگرمیوں کی حمایت کے لیے جنرل لائسنس جاری کیے ہیں۔

امریکی بیان میں نیڈ پرائس نے مزید کہا کہ طالبان نے اپنے عہد کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی کو کسی بھی ملک کو دھمکی دینے کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

امریکی حکام نے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی مسلسل موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکی وفد نے طالبان رہنماؤں کے حالیہ بیانات کا جائزہ لیا جس میں ’ہر سطح پر خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کے لیے حمایت کا اظہار کیا گیا اور اس عزم کو ملک بھر میں نافذ کرنے پر زور دیا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں