طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کردی

03 دسمبر 2021
طالبان نے وزرا اور عدالت سمیت اداروں کو خواتین کے حقوق کی آگاہی پھیلانے کی ہدایت کردی—فوٹو:رائٹرز
طالبان نے وزرا اور عدالت سمیت اداروں کو خواتین کے حقوق کی آگاہی پھیلانے کی ہدایت کردی—فوٹو:رائٹرز

افغانستان کے حکمران طالبان نے ملک میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کرتے ہوئے نکاح کے لیے بالغ خاتون کی رضامندی کو ضروری قرار دے دیا اور وزرا سمیت وزارتوں کو اس حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ہدایت کردی۔

خبر ایجنسی اے پی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخونزادہ نے خواتین کی جبری شادی پر پابندی کا حکم جاری کیا۔

مزید پڑھیں: دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے، وزیراعظم افغانستان

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مرد اور خواتین دونوں کے ساتھ برابری ہونی چاہیے، خواتین کو جبر یا دباؤ کے ذریعے شادی کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

طالبان کے سربراہ نے کہا ہے کہ ایک خاتون پراپرٹی نہیں ہے بلکہ قابل عزت اور ایک آزاد انسان ہیں، کوئی بھی خواتین کو امن معاہدوں اور دشمنیاں ختم کرنے کے لیے استعمال نہیں کرسکتا ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری اعلامیے کے مطابق انہوں نے کہا کہ شوہر کے انتقال اور شرعی عدت کے بعد بیوہ کے ساتھ جبری شادی نہیں کرسکتا ہے اور نہ ان کے رشتہ دباؤ ڈال سکتے ہیں، ایک بیوہ کو شادی کرنے اور اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔

طالبان نے واضح کیا ہے کہ بیوہ کو ان کے شوہر کی جائیداد میں مخصوص حصے کا حق حاصل ہے اور اس حق سے بچے، والد اور دیگر رشتہ دار ان کو محروم نہیں کرسکتے ہیں۔

حکم نامے میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے خواتین کی شادی کی کم سے کم عمر کتنی ہوگی جو اس سے قبل 16 سال مقرر کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان نے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی شروع کردی

طالبان قیادت کا کہنا تھا کہ افغانستان کی عدالتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ برابری کا سلوک کریں اور خصوصاً بیواؤں کو وراثت میں حصہ دیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ وزرا کو ملک بھر کے عوام میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے آگاہی پھیلانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

وزارت مذہبی امور اور حج کو کہا گیا ہے کہ وہ تقریروں اور خطبات میں لوگوں میں خواتین کے حقوق کی آگاہی پھیلانے کے لیے علما کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کے حقوق نہ دینے پر اللہ کی ناراضی کا سامنا کرنا ہوگا۔

افغانستان کی وزارت اطلاعات کو بھی ہدایت کی گئی ہے وہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے مضامین شائع کرے اور آڈیو کی صورت میں اور دیگر ذرائع کے ساتھ آگاہی پھیلائیں۔

سپریم کورٹ سے کہا گیا ہے وہ تمام ماتحت عدالتوں کو ہدایت کرے کہ وہ خواتین کی اپنے حقوق کے حوالے سے دی گئی درخواستوں کو ترجیح دیں۔

قبل ازیں طالبان نے 15 اگست کو حکومت حاصل کرلی تھی تو دنیا بھر سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دی جائے اور خواتین کے حقوق بحال کیے جائیں۔

تاہم طالبان حکومت کی جانب سے ساتویں جماعت سے بارھویں جماعت کی طالبات کو اسکول جانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور بڑی تعداد میں خواتین کی ملازمت میں واپسی پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں