دنیا کے 38 ممالک میں ’اومیکرون‘ موجود ہے، ہلاکت سامنے نہیں آئی، ڈبلیو ایچ او

اپ ڈیٹ 04 دسمبر 2021
ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا کہ ہمیں ابھی صبر کرنا چاہیے اور خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے— فائل فوٹو:اے ایف پی
ڈبلیو ایچ او کے عہدیدار نے کہا کہ ہمیں ابھی صبر کرنا چاہیے اور خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے— فائل فوٹو:اے ایف پی

عالمی ادارہ صحت نے کہا کہ 38 ممالک میں اومیکرون کی تشخیص ہوئی ہے لیکن عالمی وبا کورونا وائرس کی نئی قسم سے اب تک کسی ہلاکت کی اطلاع نہیں ہوئی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ترجمان نے بتایا کہ انہوں نے ’اب تک اومیکرون سے متعلق اموات کی کوئی رپورٹ نہیں دیکھی‘۔

کورونا وائرس پر ڈبلیو ایچ اور ٹیکنیکلی سربراہی کرنے والی ماریہ وان کیرکوف کاکہنا تھا کہ دنیا کے 38 ممالک میں اومیکرون سے متعلق کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، کورونا وائرس کا یہ ویرینٹ اب ڈبلیو ایچ او کے تمام 6 خطوں میں پھیل رہا ہے۔

ڈبلیو ایچ او کا کہنا تھا کہ انہیں اومیکرون کی متعدی شدت اس کی ویکسین کی تعین میں کئی ہفتے لگیں گے۔

مزید پڑھیں: اومیکرون کے مزید کیسز رپورٹ، متعدد ممالک نے سرحدیں بند کردیں

تاہم،انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سائنس دان اس وائرس سے متعلق جواب دے سکیں گے۔

ڈبلیو ایچ او کی ڈائریکٹر برائے ہنگامی امور کے مائیکل ریان نے کہا کہ ’ہم وہ جواب حاصل کرنے جا رہے ہیں جن کی تلاش یہاں موجود ہرشخص کو ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہمیں ابھی سائنس پر بھروسہ کرتے ہوئے صبر کرنا چاہیے اور خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے‘۔

ماریہ وان کیرکوف نے سماجی میڈیا کے ناظرین کا بتایا کہ تجویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ویرینٹ تیزی سے منتقل ہورہا ہے، لیکن اس کی واضح تصویر سامنے میں آنے میں کچھ وقت لگے گا۔

انہوں نے کہا کہ طلبا کی جانب سے وائرس کی شدت کے حوالے سے آنے والی رپورٹ نوجوان افراد میں بیماری منتقل ہونے کا رجحان کم ہے۔

ماریہ وان کیرکوف کا کہنا تھا کہ اومیکرون کیسز کی تشخیص زیادہ تر مسافروں میں ہوئی ہے، اور وہ افراد کو بیماری میں مبتلا ہیں انہیں جہازوں میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی ادارہ صحت نے کورونا کی نئی قسم کو باعث تشویش قرار دے دیا

انہوں نے کہا کہ ’بہت جلد‘ ہم اومیکرون کی شدت کے حوالے سے نتائج تک پہنچ جائیں گے۔

مائیکل ریان کا کہنا ہے کہ ویکسین کے حوالے سے ڈبلیو ایچ او نے زور دیا کہ موجودہ ویکسینز کے اثر انداز ہونے کی صلاحیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’فی الحال جو ویکسینز استعمال کی جارہی ہیں انہیں تبدیل کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے‘ ۔

مائیکل ریان نے بتایا کہ ’اس بات کی حمایت کا ثبوت نہیں ہے لیکن اس معاملے پر میں بہت کا ہورہا ہے کہ اگر ہم ویکسینز تبدیل کریں گے تو ہم اسے کیسے تبدیل کرسکتے ہیں فی الحال ویکسین لگوانا ہی آپ کے لیے بہترین حل ہے‘۔

یاد رہے ڈبلیو ایچ او کو اومیکرون کی پہلی رپورٹ 24 نومبر کو جنوبی افریقہ سے موصول ہوئی تھی ،جب ایک معروف لیباٹری نے تصدیق کی تھی کہ کیس کی تشخیص 9 نومبر کو حاصل کیے گئے نمونوں سے ہوئی تھی۔

ماریہ وان کیرکوف نے کہا کہ وائرس کا نیا ویرینٹ نومبر میں حاصل کردہ نمونوں سے دریافت ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ ممکنہ طور پر اس سے قبل بھی افریقہ کے باہر کچھ کیسز پائے گئے ہوں گے۔

گزشتہ 60 روز میں گلوبل سائنس انیشی ایٹیو کے تحت حاصل کیے گئے نمونوں میں 99.8 فیصد ڈیلٹا ویرینٹ کے کیسز کی تشخیص ہوئی ہے۔

ماریہ نے کہا کہ ڈیلٹا ویرینٹ نے دنیا میں گردش کرنے والے دیگر وائرس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اب ہمیں دیکھنا ہے کہ اومیکرون کا کیا اثرات ہوں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں