‘آپ مجھے پھانسی دینا چاہیں تو دے دیں’، شوکت صدیقی کا سپریم کورٹ میں سخت مؤقف

اپ ڈیٹ 06 دسمبر 2021
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بینچ کے سوالوں پر اپنا مؤقف دے دیا—فائل/فوٹو: ڈان
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بینچ کے سوالوں پر اپنا مؤقف دے دیا—فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے سخت مؤقف پر عدالت عظمیٰ نے برہمی کا اظہار کیا۔

سپریم کورٹ میں جسٹس عمر عطابندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی اپیل پر 6 ماہ کے طویل وفقے کے بعد سماعت کی۔

مزید پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: 'غصہ آئی ایس آئی پر تھا، تضحیک عدلیہ کی کردی گئی'

جسٹس سردار طارق مسعود نے شوکت عزیز صدیقی کے وکیل حامد خان سے کہا کہ کیا یہ آپ کی طرف سے تسلیم شدہ حقائق ہیں کہ آپ سے جنرلز ملے؟ جب جرنیل آپ سے ملے تو آپ نے ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کیوں نہیں کیا۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ایک اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی تو پھر توہین عدالت کا نوٹس بنتا تھا، آپ نے کسی چیف جسٹس کو اطلاع بھی نہیں دی، یہ بتا دیں کیا یہ آپ کا مس کنڈکٹ نہیں تھا۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے مؤکل کو صرف اس لیے نکالا نہیں جاسکتا کہ میرے مؤکل نے جرنیل کو نوٹس نہیں کیا لیکن چیف جسٹس کو خط لکھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس پر سپریم کورٹ کو توہین عدالت نوٹس دینا چاہیے تھا کہ ایک جج پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ28 جون 2018 کو جرنیل آپ سے ملے آپ نے 31 جولائی کو چیف جسٹس کو خط لکھا، ایک ماہ تک انتظار کیوں کیا۔

اس موقع پر سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی خود روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ‘آپ اس وقت کی صورت حال دیکھیں کہ اداروں کے سربراہان میری گردن کے پیچھے تھے، میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا تو کیا ہوتا، اس وقت کے ادارے (سپریم کورٹ) کے سربراہ ثاقب نثار میری گردن کے پیچھے تھے’۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس شوکت صدیقی کیس: کیا جج کو اس انداز میں گفتگو کرنی چاہیے؟ جسٹس اعجازالاحسن

سابق جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ‘اس کے بعد آپ مجھے پھانسی دیں گے تو دے دیں، 23 سال بطور وکیل، 7 سال بطور جج اور 3 سال بطور سائل ہو گئے ہیں، میں اس نظام کو بہت اچھے سے سمجھتا ہوں’۔

سپریم کورٹ کے بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی پر اظہار برہمی کیا اور ان کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ ‘حامد خان صاحب آپ نے دانستہ خاموشی اختیار کی ہے، جب آپ کے مؤکل نے اس عدالت کی تضحیک کی تو آپ خاموش رہے’۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ‘جس طرح آپ کے موکل پھٹ پڑے یہ ہر لحاظ سے غیر معیاری ہے، آپ نے شوکت عزیز صدیقی کی خاموش رہ کر حوصلہ افزائی کی،آپ نے خاموش رہ کر شوکت عزیز صدیقی کی حوصلہ افزائی کی’۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ معذرت کرتا ہوں، جذبات اکثر آڑے آ جاتے ہیں، جس پر جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ جذبات کی یہاں کوئی جگہ نہیں، ہمیں یہ انداز بالکل پسند نہیں آیا، آپ اپنے مؤکل کو اجازت دیتے رہے کہ وہ عدالت کی تضحیک کرتے رہیں۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ آپ اپنے مؤکل کو سمجھائیں کہ جب ان کے وکیل موجود ہیں تو وہ بات نہ کریں۔

مزید پڑھیں: شوکت عزیز صدیقی کی ریٹائرمنٹ سے قبل کیس کا فیصلہ دے دیں گے، سپریم کورٹ

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے سوال کیا کہ ‘صرف شوکت عزیز صدیقی کو ہی کیوں ٹارگٹ کیا گیا تو حامد خان نے جواب دیا شوکت صدیقی آئی ایس آئی کو تنگ کرتے تھے اس لیے ٹارگٹ کیا گیا، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ اس پر جوڈیشل کونسل کارروائی کیوں کرے گی’۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ ‘ادارے سمجھتے تھے کہ شوکت صدیقی آزاد جج ہیں، فیض آباد دھرنا کیس میں ریمارکس پر بھی جوڈیشل کونسل نے شوکاز بھیجا’۔

جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ ریمارکس دیکھ کر اندازہ ہوگا کہ جج آزاد تھے یا پہلے سے ذہن بنایا ہوا تھا، جسٹس سردار طارق نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس بار میں تقریر سے پہلے ہوا تھا، برطرفی تقریر پر ہوئی دونوں کا آپس میں تعلق نہیں بنتا۔

جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ تقریر اور ریمارکس تسلیم شدہ ہیں جن پر کونسل نے فیصلہ کیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے یہ نہیں کہا کہ آپ نے تقریر میں سب باتیں غلط کی ہیں، بلکہ یہ کہا کہ تقریر کرنا غلط تھا۔

سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے دلائل سننے کے بعد سماعت کل تک ملتوی کردی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ شوکت عزیز صدیقی کو 21 جولائی 2018 کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کے لیے بطور جج نامناسب رویہ اختیار کرنے پر آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارشات پر جوڈیشل آفس سے ہٹا دیا گیا تھا۔

بعد ازاں شوکت عزیز صدیقی نے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا اور ایک درخواست دائر کی تھی، جس پر ابتدا میں رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراضات لگائے گئے تھے تاہم فروری 2019 میں سپریم کورٹ نے رجسٹرار کے اعتراضات ختم کرتے ہوئے درخواست سماعت کے لیے منظور کرلی تھی۔

جس کے بعد ان کی اپیل پر سماعت تاخیر کا شکار ہوئی تھی جس پر انہوں نے نومبر 2020 کے اختتام پر چیف جسٹس پاکستان کو ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں کیس کی سماعت جلد مقرر کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

بظاہر یہ ان کا تیسرا ایسا خط تھا جو درخواست گزار کی جانب سے کیس کی جلد سماعت کے لیے چیف جسٹس پاکستان کو لکھا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹادیا

اس سے قبل 24 ستمبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے شوکت عزیز صدیقی کی بطور جج برطرفی کے 11 اکتوبر 2018 کے نوٹیفکیشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سابق جج کی نمائندگی کرنے والے سینئر وکیل حامد خان سے کہا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حتمی فیصلہ کا انتظار کریں جو جلد ہی آنے والا ہوگا۔

بعد ازاں 23 اکتوبر کو جسٹس عیسیٰ کیس میں اکثریتی فیصلہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ جاری کیا گیا جبکہ 4 نومبر کو جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سید منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹس جاری ہوئے تھے۔

خط میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی کہ وہ (شوکت عزیز صدیقی) 11 اکتوبر 2018 سے دفتر سے نکالے گئے اور انہیں دوبارہ ملازمت بھی نہیں دی گئی۔

ساتھ ہی انہوں نے لکھا تھا کہ یہ عالمی سطح پر قانون کا تسلیم شدہ اصول ہے کہ ’انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہوتی ہے‘۔

تبصرے (1) بند ہیں

Polaris Dec 06, 2021 09:12pm
Justice must be done without fear or favour. How one can expect justice from this type of Judge. The standard to be a Lawer must be raised and to be a Judge be still higher.