برطرف کیے گئے 17 ہزار ملازمین میرٹ پر بھرتی ہوئے تھے، اعتزاز احسن

اپ ڈیٹ 08 دسمبر 2021
اعتزاز احسن نے کہا کہ 17 اگست کا فیصلہ آئین کی غلط تشریح پر مبنی ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
اعتزاز احسن نے کہا کہ 17 اگست کا فیصلہ آئین کی غلط تشریح پر مبنی ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے 17 اگست کے فیصلے سے معطل ہونے والے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ملازمین سیاسی بنیاد پر بھرتی نہیں ہوئے تھے بلکہ مطلوبہ قابلیت کے حامل تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بیرسٹر اعتزاز احسن نے یہ بات سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرِ ثانی درخواست کی سماعت کے دوران کہی جس سے 17 ہزار افراد اپنی نوکریوں سے محروم ہوگئے تھے۔

بیرسٹر اعتزاز احسن نے بینچ کے سامنے سال 2015 میں ججوں کی پینشن سے متعلق ایک کیس کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کسی حکم نامے کو اس سے پہلے کے وقت سے نافذ نہیں کیا جاسکتا جب تک اس میں یہ وضاحت نہ کی گئی ہو۔

مذکورہ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جو پینش دے دی گئی اسے واپس نہیں لیا جانا چاہیے تاہم مستقبل میں اس طرح کے فوائد ان ججز کو نہیں ملنے چاہئیں جنہیں پرووِژنل کانسٹی ٹیوشن آرڈر (پی سی او) کے تحت حلف اٹھانے پر برطرف کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پارلیمنٹ، عدالتی فیصلے کو ختم نہیں کرسکتی، سپریم کورٹ

خیال رہے کہ 17 اگست کو اپنی ریٹائرمنٹ کے روز سابق جسٹس مشیر عالم نے پیپلز پارٹی کے دور کے ’برطرف ملازمین (بحالی) آرڈیننس ایکٹ 2010 (سیرا)‘ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دے دیا تھا جس کے تحت بڑی تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں اور ترقی ملی تھی۔

اعتزاز احسن نے 2009 میں سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کی لگائی گئی ایمرجنسی کے خلاف دائر درخواست پر سنائے گئے حکم کا ذکر کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکم نامے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا آئین غیر آئینی قرار دے دیا گیا تھا لیکن اس کے ملازمین کو سرپلس پول میں بھیج کر ان کا تحفظ کیا گیا تھا۔

تاہم جب بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اعتزاز احسن سے استفسار کیا کہ کیا وہ یہ تجویز دے رہے ہیں کہ برطرف ملازمین کو سرپلس پول میں بھیج دیا جائے تو انہوں نے جواب دیا کہ اس طرح کے اقدامات صرف اس وقت کیے جاتے ہیں جب اسامیاں خالی نہ ہوں جبکہ موجودہ کیس میں ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ: 16 ہزار ملازمین کی برطرفی، حکم امتناع پربحالی کی درخواست مسترد

بیرسٹر اعتزاز احسن نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے جاری کردہ فروری 1997 کے نوٹی فکیشن کی نقل پیش کی جب ان ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کیا گیا تھا اور کہا کہ سویلین عہدیداروں کی نوکریاں ختم کی گئیں لیکن فوجی عہدیداروں کو کبھی کچھ نہیں کہا گیا۔

وکیل نے مزید کہا کہ 17 اگست کا فیصلہ آئین کی غلط تشریح پر مبنی ہے اور عدالتی فیصلوں کو آگے کے لیے نافذ العمل ہونا چاہیے گزشتہ مدت کے لیے نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے کسی قانون کو ختم کیا ہے جس پر اعتزاز احسن نے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں ہمیشہ کسی قانون یا قانون سازی کے حصے کے تحفظ کی جانب جھکاؤ ہوتا ہے۔

اپنے مؤقف کو وزن دینے کے لیے انہوں نے این آر او کیس میں ڈاکٹر مبشر حسن کی اپیل پر سال 2010 میں سنائے گئے فیصلہ کا حوالہ دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملازمین کی برطرفی: ’عدالتی فیصلے تک برطرف ملازمین کو سرکاری رہائش گاہوں سے نہ نکالا جائے‘

جسٹس منصور علی شاہ نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ 10 سال کے وقفے کے بعد اتنے زیادہ برطرف ملازمین کو بحال کرنے کی کیا جلدی تھی، انہوں نے کہا کہ ’نہ جنگ تھی نہ کوئی وبا یا کوئی اور بحران، تو ان ملازمین میں ایسا کیا خاص تھا کہ انہیں 10 سال سے زائد کے عرصے بعد بحال کیا گیا‘۔

انہوں نے اعتزاز احسن کو کہا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ بحال ہونے والے افراد کن حقوق کے حقدار ہوں گے اور 10 یا 12 سال تک کام کرنے کے بعد انہیں کیا فوائد حاصل ہوں گے، چاہے ان کی تقرریوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہو۔

اعتزاز احسن نے کہا کہ ان کے مؤکلوں کو بینظیر کے دوسرے دورِ اقتدار کے دوران تعینات کیا گیا تھا اور فروری 1997 میں نگراں حکومت کے آخری روز برطرف کردیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں قانونی نہیں بلکہ حکومتی حکم نامے کے ذریعے برطرف کیا گیا اور یہ پریشان کن ہے کہ حکومت کو اس طرح ملازمین برطرف کرنے کی اجازت ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ نے برطرف ملازمین (بحالی ) آرڈیننس ایکٹ 2010 کو کالعدم قرار دے دیا

وکیل کا کہنا تھا کہ 17 اگست کے فیصلے میں ’قانونی اور بنیادی خامیاں‘ ہیں اور اس میں ترقی کے معاملے میں ایگزیکٹو آرڈرز یا عدالتی فیصلوں جیسے 2013 کے فیصلے پر انحصار کیا گیا جس نے ایگزیکٹو کارروائیوں کی توثیق کی جبکہ سیرا کے ذریعے غلط کو صحیح کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں