سندھ کی عدالتوں میں ’قواعد کی تعمیل‘ کے بغیر بھرتیوں کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل

اپ ڈیٹ 10 دسمبر 2021
عدالت عظمیٰ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے 2017 سے سندھ ہائی کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوں میں قواعد کی مکمل تعمیل کے خلاف بھرتیوں کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی۔

عدالت عظمیٰ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ بھرتیوں کے لیے ٹیسٹ ہوئے نہ انٹرویوز کیے گئے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ میں بھرتیوں کا اشتہار بھی نہیں دیا گیا تھا، عمر کی حد اور ڈومیسائل سے متعلق قوانین میں نرمی کی وجوہات بھی نہیں بتائی گئیں۔

عدالت نے رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ کو بھرتیوں کا تمام ریکارڈ مرتب کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ میں قواعد کی ’مکمل تعمیل‘ کے بغیر بھرتیوں کی وضاحت طلب

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ماتحت عدالتوں میں بھرتیوں میں بڑے پیمانے پر قواعد کی خلاف ورزیاں ہوئیں، جس پر پورے سندھ میں شور مچا ہوا تھا۔

رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ نے عدالت کو بتایا کہ ماتحت عدلیہ نے 2000 سے تقرریوں کے اسی طریقہ کار پر عمل کیا۔

اس موقع پر وکیل منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے ماضی کے طریقہ کار سے انحراف کیا یا نہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت جنوری تک ملتوی کردی، تاہم سماعت کی تاریخ بعد میں مقرر کی جائے گی۔

یاد رہے کہ درخواست گزار غلام سرور قریشی نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ سندھ ہائی کورٹ میں 2017 سے سول ججز اور صوبے بھر کی ماتحت عدالتوں میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ججز کا تقرر غیر قانونی، غیر آئینی ہے اور ان کی تعیناتی قانونی حیثیت نہیں رکھتی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ، ماتحت عدالتوں میں ججز کے تقرر کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست

22 نومبر کو ہونے والی سماعت میں عدالت عظمیٰ نے سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار عبدالرزاق کو 2 دسمبر کو پیرا لیگل اسٹاف کی تقرر کے ریکارڈ کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ 2017 کے بعد سے مختلف مراحل کے تحت عہدوں پر بھرتیوں کی تعداد بتائیں اور منظوری دینے والے حکام کی نشاندہی کریں۔

سپریم کورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ رپورٹ میں مختلف ضلعی ججوں کی جانب سے قواعد میں نرمی کے لیے لکھے گئے خطوط کی کاپیاں شامل ہیں جن پر جولائی 2017 کی ایک ہی تاریخ درج ہے۔

درخواست گزار نے استدعا کی کہ عدالت عظمیٰ متعلقہ حکام کو ایسی تمام تقرریوں کو کالعدم قرار دینے کا حکم دے۔

تبصرے (0) بند ہیں