پاکستان کی بیجنگ سرمائی اولمپکس کے سفارتی بائیکاٹ پر تنقید

اپ ڈیٹ 11 دسمبر 2021
دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیجنگ اولمپکس کی میزبانی میں چین کی کامیابی کی خواہش کا اظہار کیا — فوٹو: ڈان نیوز
دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیجنگ اولمپکس کی میزبانی میں چین کی کامیابی کی خواہش کا اظہار کیا — فوٹو: ڈان نیوز

دفتر خارجہ نے امریکا اور چند دیگر ممالک کی جانب سے منصوبہ بندی کے تحت بیجنگ میں سرمائی اولمپکس 2022 کے سفارتی بائیکاٹ پر تنقید کرتے ہوئے کھیلوں کو سیاست سے الگ رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران کہا کہ ’پاکستان کھیلوں کو سیاست کی نذر کرنے کا مخالف ہے اور امید رکھتا ہے کہ تمام ممالک کھیلوں میں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے بیجنگ میں جمع ہوں گے۔‘

انہوں نے یہ بات ان رپورٹس پر تبصرہ کرتے ہوئی کی کہ امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا میزبان ملک کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ہانگ کانگ میں کریک ڈاؤن کے خلاف بیجنگ میں اپنے عہدیداران کو احتجاجاً نہیں بھیجیں گے۔

تاہم یہ ممالک اپنے ایتھلیٹس کو کھیلوں میں شرکت سے نہیں روکیں گے۔

سرمائی اولمپکس آئندہ سال 4 سے 20 فروری تک بیجنگ اور پڑوسی صوبے ہیبے کے قصبوں میں منعقد ہوں گے۔ چین نے بائیکاٹ کے اعلانات پر شدید ردعمل دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان، امریکا اور چین کے بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم کرنا چاہتا ہے، وزیراعظم

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے ’ٹھوس جوابی اقدامات‘ کی دھمکی دی تھی، تاہم انہوں نے واضح نہیں کیا تھا کہ کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

انہوں نے امریکا پر ’کھیل میں سیاسی غیر جانبداری‘ کے اصول کی خلاف ورزی کا بھی الزام لگایا تھا۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نے بیجنگ اولمپکس کی میزبانی میں چین کی کامیابی کی خواہش کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ ہمیں یقین ہے کہ کورونا وائرس کے باعث عائد پابندیوں کے باوجود بیجنگ سرمائی اولمپکس، پاکستان سمیت دنیا بھر کے کھیلوں کے شائقین کے لیے ایک شاندار اور رنگین گالا پیش کرے گا۔‘

پاکستان کی جانب سے بائیکاٹ پر تنقید امریکا کی میزبانی میں ’جمہوریت سے متعلق کانفرنس‘ میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کے فوری بعد سامنے آئی ہے۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان نے ایونٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ چین کو اس میں مدعو نہ کیے جانے کے باعث کیا ہے، جبکہ تائیوان مہمانوں کی فہرست میں شامل ہے۔

اس تاثر کو اس وقت مزید تقویت ملکی جب ژاؤ لیجیان نے ٹوئٹر پوسٹ میں پاکستان کے کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کے فیصلے کو یہ کہتے ہوئے سراہا کہ ’حقیقی فولادی بھائی۔‘

مزید پڑھیں: پاکستان میں جمہوریت کو مزید مضبوط کرنے کیلئے پرعزم ہیں، دفتر خارجہ

اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ نئی سرد جنگ کا خدشہ درپیش ہے لیکن پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بنے گا۔

تاہم اسلام آباد کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ تیزی سے قریب ہو رہا ہے۔

اس بات کی بھی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ پاکستان، مغرب سے دور ہو رہا ہے۔

عاصم افتخار نے اس تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں آپ کے سوالات سے جو آرا اور تاثرات سامنے آرہے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ پاکستان متعدد معاملات میں امریکا کے ساتھ قریبی رابطے میں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اسے دوطرفہ کے ساتھ علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کے لحاظ سے وسعت دینا چاہتے ہیں۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں