الیکشن کمیشن کا بارکوڈ والے بیلٹ پیپرز پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2021
ذرائع کے مطابق ایک مرحلے پر کمیشن نے 20 دسمبر کے انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز پر کوڈ چھاپنے پر بھی غور کیا تھا — فائل: اے پی پی
ذرائع کے مطابق ایک مرحلے پر کمیشن نے 20 دسمبر کے انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز پر کوڈ چھاپنے پر بھی غور کیا تھا — فائل: اے پی پی

اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان نے مکمل رازداری کے خلاف سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق سینیٹ انتخابات کے لیے بارکوڈ والے بیلٹ پیپرز کے استعمال پر سیاسی جماعتوں سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان کو باخبر ذرائع نے بتایا کہ کمیشن نے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں ووٹوں کو قابل شناخت بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال پر بحث کی تاکہ ہارس ٹریڈنگ کو روکا جاسکے، کمیشن نے فیصلہ کیا ہے کہ 20 دسمبر کو سینیٹ کی نشست کے لیے طے شدہ انتخاب روایتی طریقے سے ہی ہوگا۔

ذرائع کے مطابق ایک مرحلے پر کمیشن نے 20 دسمبر کے انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز پر کوڈ چھاپنے پر بھی غور کیا تھا جسے ایک اسکینر سے الیکشن کمیشن کے تیار کردہ خصوصی سافٹ ویئر کے ساتھ ہی پڑھا جاسکتا تھا۔

اجلاس کے دوران اس ممکنہ صورتحال پر بھی بات کی گئی کہ کہیں اراکین بارکوڈ والا بیلٹ پیپر دیکھ کر ووٹ دینے سے ہی انکار نہ کردیں، اس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ ضرورت پڑنے پر سینیٹ انتخابات کے لیے ووٹوں کو قابل شناخت بنانے والی ٹیکنالوجی پر سیاسی جماعتوں سے مشورہ کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: بیلٹ پیپرز میں ’نوٹا‘ کے آپشن کیلئے آئین میں شق نہیں، الیکشن کمیشن

الیکشن کمیشن کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ ’کوڈ کو پڑھنے والے سافٹ ویئر کی صورت میں ایک حل تو پہلے سے موجود ہے، کمیشن نے یہ سافٹ ویئر مارچ میں ہی تیار کرلیا تھا‘۔

تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کمیشن کے خیال میں اس نظام کے استعمال سے قبل سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے۔

سپریم کورٹ نے مارچ میں ہونے والے سینیٹ انتخابات سے قبل یہ کہا تھا کہ بیلٹ کی رازداری ناگزیر نہیں ہے، ساتھ ہی عدالت نے کمیشن کو سینیٹ انتخابات میں بدعنوانی کی روک تھام کے لیے جدید ٹیکنالوجی سمیت تمام دستیاب ذرائع استعمال کرنے کی ہدایت کی تھی۔

5 رکنی بینچ نے صدارتی ریفرینس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’آرٹیکل 218 (3)، آرٹیکل 220 اور دیگر آئینی اور قانونی دفعات کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کا مینڈیٹ حاصل کرنے کے لیے، کمیشن کو چاہیے کہ اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سمیت تمام دستیاب ذرائع استعمال کرے۔

عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ’(یہ آئینی ذمہ داری دراصل اس بات کو یقینی بنانا ہے) کہ انتخابات دیانت داری، انصاف اور شفافیت اور قانون کے مطابق منعقد کیے جائیں اور بدعنوانی کی روک تھام کی جائے‘۔

دسمبر 2020 میں دائر ہونے والے ریفرنس کے ذریعے وفاقی حکومت نے سرپریم کورٹ سے رائے طلب کی تھی کہ آیا سینیٹ انتخابات ’آئین کے تحت‘ آتے ہیں یا پھر 2017 کے الیکشن ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔

مزید پڑھیں: سینیٹ میں اوپن بیلٹ کا معاملہ: ای سی پی کن بنیادوں پر نظر ثانی کرسکتا ہے، مریم نواز

اکثر قانونی ماہرین کے مطابق ’آئین کے تحت‘ سے مراد آئین کا آرٹیکل 226 ہے جس کے تحت وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے علاوہ تمام انتخابات خفیہ بیلٹ کے تحت ہونے چاہئیں۔

دریں اثنا خیبر پختونخوا سے خالی ہونے والی سینیٹ کی نشست پر انتخابات 20 دسمبر کو ہوں گے۔

یہ نشست پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر ایوب آفریدی کے مستعفی ہوجانے پر خالی ہوئی تھی، یہ استعفیٰ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ شوکت ترین کو دوبارہ وزیر خزانہ بنانے کی راہ ہموار کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔


یہ خبر 17 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں