امریکا کا افغانستان کے حوالے سے مؤقف میں لچک کا مظاہرہ

22 دسمبر 2021
امریکی اہلکار نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس وقت افغانستان کو انسانی امداد سے بڑھ کر مدد کی ضرورت ہے — تصویر: اے ایف پی
امریکی اہلکار نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس وقت افغانستان کو انسانی امداد سے بڑھ کر مدد کی ضرورت ہے — تصویر: اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا، اقوامِ متحدہ کی کئی ایجنسیوں کے ساتھ مل کر افغان معیشت میں سرمایہ داخل کرنے کے راستوں پر غور کر رہا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں ہونے والا یہ اعلان گزشتہ روز اسلام آباد میں محکمہ خارجہ کے ایک اہلکار کے بیان کے بعد سامنے آیا۔

اس بیان میں کہا گیا تھا کہ امریکا، افغانستان پر عائد معاشی پابندیوں میں بڑی حد تک لچک کا مظاہرہ کرے گا۔

رواں ہفتے 39 امریکی قانون سازوں نے امریکی سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری خزانہ کو خط لکھا تھا جس میں ان سے افغانستان کے منجمد اثاثے بحال کرنے اور افغان معیشت کی تعمیر نو میں مدد کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

اقوام متحدہ کی جانب سے بھی اس خط کی حمایت کی گئی تھی۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے واشنگٹن میں بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ہم یو این ڈی پی سمیت اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں تاکہ افغان معیشت میں سرمایہ داخل کرنے اور انسانی امداد پہنچانے کے مختلف راستے تلاش کیے جاسکیں‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکا نے گزشتہ ہفتے ورلڈ بینک فنڈ کی جانب سے 28 کروڑ ڈالر کی انسانی امداد جاری کرنے کی حمایت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ اگست کے بعد سے امریکا، افغانستان کے لیے 20 کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی انسانی امداد بھیج چکا ہے، یوں رواں سال افغانستان کے لیے امریکا کل 47 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد کر چکا ہے۔

مزید پڑھیں: کوئی اقدام نہ اٹھایا گیا تو افغانستان میں سب سے بڑا انسانی بحران دیکھنا پڑے گا، وزیر اعظم

امریکی اہلکار نے اس بات کو تسلیم کیا کہ اس وقت افغانستان کو انسانی امداد سے بڑھ کر مدد کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے امریکی محکمہ خزانہ نے 15 اگست کے بعد افغانستان پر عائد ہونے والی پابندیوں میں نرمی کی ہے۔

امریکا کی جانب سے افغانستان پر اپنے مؤقف پر لچک کا اظہار افغان طالبان کی حکومت پر عائد پابندیوں پر نظر ثانی کے متعدد مطالبوں کے بعد سامنے آیا۔

ان پابندیوں کے دوران امریکا نے افغانستان کے اثاثوں اور قرضوں پر مشتمل ساڑھے 9 ارب ڈالر بھی منجمد کر دیے تھے۔

اس اقدام سے مالی امداد پر منحصر افغان معیشت کو شدید دھچکا لگا تھا، ساتھ ہی اس کی وجہ سے 4 دہائیوں طویل خانہ جنگی اور خشک سالی سے پیدا ہونے والے انسانی بحران میں شدت آگئی تھی۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان کا بریفنگ میں کہنا تھا کہ افغانستان کے معاشی بحران خاص طور پر موجودہ حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ’ایسی چیز ہے جو امریکی فوجی دستوں کے انخلا سے قبل بھی موجود تھی اور اس میں مزید شدت آگئی ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کی جانب سے افغانستان کیلئے او آئی سی کے اقدامات کا خیر مقدم

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان کی صورتحال فوری ردعمل کی متقاضی ہے، اب سردیوں کے مہینے شروع ہوچکے ہیں اور ہم افغان عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے فکر مند ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان ٹام ویسٹ نے اسلام آباد میں ہونے والے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے حالیہ اجلاس میں شرکت کی تھی جہاں افغان عوام کی مالی مدد کے لیے ٹرسٹ فنڈ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا اکیلے افغانستان کی مدد نہیں کر سکتا، انہوں نے دیگر ممالک سے بھی افغانستان کی مدد کے لیے آگے آنے کا کہا خاص طور پر ’خطے کے وہ ممالک جو افغانستان کے قریب واقع ہیں اور افغان عوام کے لیے بہت کچھ کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا بھی چاہیے‘۔

ترجمان نے کسی خاص ملک کا نام لینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ خطے میں ایسے ممالک موجود ہیں جن کے مفاد میں ایک مستحکم اور محفوظ افغانستان ہے اور وہ اسے ممکن بنانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔


یہ خبر 22 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں