افغانستان: مرد رشتے دار کے بغیر خواتین کے سفر کرنے پر پابندی عائد

26 دسمبر 2021
طالبان نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی خواہشمند خواتین کے لیے حجاب کو بھی لازمی قرار دے دیاہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
طالبان نے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی خواہشمند خواتین کے لیے حجاب کو بھی لازمی قرار دے دیاہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں طالبان نے اعلان کیا ہے کہ مختصر فاصلوں کے سوا خواتین کہیں بھی مرد رشتے دار کے بغیر سفر نہیں کر سکیں گی۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق نیکی کے فروغ اور برائی سے روک تھام کی وزارت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات میں تمام گاڑیوں کے مالکان کو باور کرایا گیا ہے کہ وہ صرف باحجاب خواتین کو سواری کی پیشکش کریں۔

مزید پڑھیں: طالبان نے افغانستان میں خواتین کی جبری شادی پر پابندی عائد کردی

وزارت کے ترجمان صادق عاکف مہاجر نے اتوار کو اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 45 میل(72 کلومیٹر) سے زیادہ سفر کرنے والی خواتین کے ساتھ اگر کوئی مرد رشتے دار نہ ہو تو انہیں سواری کی پیشکش نہیں کی جا سکتی۔

سوشل میڈیا پر زیر گردش یہ ہدایات ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہیں جب مذکورہ وزارت نے چند ہفتے قبل ہی افغانستان کے ٹیلی ویژن چینلز کو ایسے ڈرامے اور سیریل کی نشریات بند کرنے کا کہا تھا جن میں خواتین کام کررہی ہیں۔

وزارت نے ٹی وی پر کام کرنے والی خاتون صحافیوں سے بھی کہا تھا کہ وہ نشریات کے دوران حجاب پہنیں۔

عاکف مہاجر نے کہا کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی خواہشمند خواتین کا باحجاب ہونا بھی لازمی ہے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی گاڑیوں میں موسیقی بجانا بند کر دیں۔

یہ بھی پڑھیں: حجاب میں خواتین کے کام میں کوئی رکاوٹ نہیں، ترجمان طالبان

تاہم ابھی تک طالبان کی جانب سے حجاب کی تشریح نہیں کی کہ اس سے کیا مراد ہے کیونکہ یہ واضح نہیں کہ اس میں سر کے بالوں کو ڈھانپنا ہو گا، چہرے کا پردہ کرنا ہو گا یا مکمل جسم کو برقع یا چادر سے ڈھانپنا ہو کیونکہ افغان خواتین کی اکثریت پہلے ہی اسکارف پہننے کی عادی ہے۔

طالبان نے اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ 90 کی دہائی کے سابقہ دور کی نسبت نرم رویہ اپنائیں گے البتہ اپنے اس وعدے کے برخلاف انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر مختلف پابندیاں عائد کی ہیں جس پر عالمی برداری نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

ملک کے کئی صوبوں میں طالبان حکام نے اسکول دوبارہ کھولنے پر آمادگی ظاہر کی تھی لیکن بہت سی لڑکیاں اب بھی ثانوی تعلیم سے محروم ہیں۔

اس ماہ کے اوائل میں طالبان نے اپنے سپریم لیڈر کے نام سے ایک فرمان جاری کیا تھا جس میں حکومت کو خواتین کے حقوق کو نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی البتہ اس حکمنامے میں لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی کا ذکر نہیں کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں دو دہائیوں بعد دوبارہ شوبز میں خواتین کو دکھانے پر پابندی

سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو امید ہے کہ بین الاقوامی شناخت کا حصول اور دنیا کے غریب ترین ملک میں سے ایک افغانستان کے لیے عالمی امداد کے حصول کے متمنی طالبان کو خواتین کو رعایت دینے پر مجبور کر دے گی۔

عالمی امدادی اداروں کئی بار افغان حکام کو یہ باور کرا چکے ہیں کہ کسی بھی قسم کی امداد کی فراہمی سے قبل طالبان کو ملک میں خواتین کے حقوق کا احترام کرنا ہو گا۔

ماضی میں طالبان نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کی تھیں جس میں ان پر مکمل طور پر جسم ڈھانپنے والا برقع پہننے کی پابندی عائد کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ انہیں صرف مرد رشتے دار کے ساتھ گھر سے نکلنے کی اجازت تھی اور کام کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے حصول پر بھی پابندی عائد تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں