جونیئر جج عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر بار کونسل کا مخالفت کا منصوبہ

اپ ڈیٹ 30 دسمبر 2021
مشترکہ اجلاس پیر کو پاکستان بار کونسل کے دفتر میں ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز
مشترکہ اجلاس پیر کو پاکستان بار کونسل کے دفتر میں ہوگا — فائل فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان کی وکلا برادری نے 3 سینئر ججوں کو برطرف کر کے ایک جونیئر جج کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے کی ایک اور کوشش کے خلاف مؤثر مزاحمت کرنے کی تیاری شروع کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) نے لاہور ہائی کورٹ کی جسٹس عائشہ ملک کی ترقی کے نامکمل ایجنڈے کو مکمل کرنے کے لیے 5 جنوری 2022 کو اپنا اجلاس طلب کیا ہے۔

اس معاملے پر غور کرنے اور مناسب حکمت عملی تیار کرنے کے لیے پاکستان بار کونسل (پی بی سی) نے 3 جنوری کو اجلاس طلب کیا ہے۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کو ایک اجلاس میں اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث جے سی پی، پاکستان کی عدالتی تاریخ میں سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کے طور پر عائشہ ملک کی ترقی کو مؤخر کرنے پر مجبور ہوگئی تھی۔

پی بی سی کے وائس چیئرمین خوشدل خان نے تمام ایگزیکٹو کمیٹیوں کے وائس چیئرمینز، جے سی پی کے وکلا اراکین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدور اور صوبائی اور اسلام آباد بار کونسلز اور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز کو اس اجلاس میں شرکت کے لیے خط لکھا ہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر بحث کیلئے جے سی پی کا اجلاس 6 جنوری کو ہوگا

مشترکہ اجلاس پیر کو پی بی سی کے دفتر میں ہوگا۔

مختلف بار ایسوسی ایشنز کو جاری کردہ خط میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ اجلاس جونیئر جج کو سپریم کورٹ میں ترقی دینے پر غور کرنے کے لیے بلایا گیا ہے، جسے انہوں نے سنیارٹی اصول کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔

خطوط میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ کس طرح چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس گلزار احمد نے لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی سمیت تین سینئر ججوں کی پروفائل رد کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے جونیئر جج کا نام دوبارہ تجویز کیا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ جے سی پی نے کمیشن کی جانب سے مسترد کیے گئے نام پر غور کرنے کے لیے 5 جنوری کو اجلاس بلایا ہے، جس کے پیش نظر وکلا کا مشترکہ اجلاس بلایا جارہا ہے تاکہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جاسکے۔

بلوچستان ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر مجید کاکڑ اور بلوچستان سے بار کونسل کے رکن منیر کاکڑ نے بھی جونیئر جج کی ترقی کو سنیارٹی کے اصول کو پامال کرنے کی کوشش قرار دیا۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ جسٹس عائشہ ملک کو لاہور ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بننے کے حق سے محروم کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عائشہ کی سپریم کورٹ میں ترقی پر وکلا کا 9 ستمبر کو احتجاج کا اعلان

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ان کی جگہ ترقی کے سب سے زیادہ مستحق جج اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے چیف جسٹس اطہر من اللہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے جے سی پی کی جانب سے جسٹس اطہر من اللہ کو نامزد کیا جانا چاہیے تھا۔

دریں اثنا محمد مسعود چشتی کی صدارت میں پی بی سی کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ایک قرارداد منظور کی گئی جس میں سنیارٹی اصول پر عمل کرنے سے متعلق پی بی سی کے وائس چیئرمین کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج شروع کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا۔

قرارداد میں متفقہ طور پر جے سی پی کے رکن بننے والے سابق جسٹس سرمد جلال عثمانی کے شاندار کریئر کی بھی تعریف کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ وہ ایک آزاد جج رہے اور انہوں نے عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کیا اور ضمیر و انصاف کے اصول پر عمل کرتے ہوئے آئین و قانونی کی حکمرانی کے لیے آمریت کی بدترین شکل کے خلاف ہمیشہ کھڑے رہے۔

مزید پڑھیں: جسٹس عائشہ ملک کی سپریم کورٹ میں ترقی پر اتفاق نہ ہوسکا

قرارداد میں کہا گیا کہ جوڈیشل کمیشن کے رکن کے طور پر ان کے تقرر کے بعد پی بی سی اور عوام بڑے پیمانے پر اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر میں سنیارٹی کے اصول کے لیے اسی سطح کے استقامت پسندانہ انتخاب کی توقع کرتے ہیں۔

قرارداد میں سنیارٹی کے اصول پر کونسل نے اپنے مستقل مؤقف کا اعادہ کیا۔

اس سے قبل 9 ستمبر کو ایک اجلاس کے دوران اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث جے سی پی کو جسٹس عائشہ کو ترقی دینے کو فیصلے کو مؤخر کرنا پڑا تھا۔

پی بی سی کے وائس چیئرمین خوشدل خان نے اس اقدام پر اپنے شدید تحفظات اور تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ججوں کی ترقی کے لیے سنیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی کوشش قرار دیا تھا۔

ایک بیان میں پی بی سی کے وائس چیئرمین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ قانونی برادری کا مستقل مؤقف ہے کہ تمام عدالتوں میں ججوں کی ترقی یا تعیناتی سنیارٹی کے اصول پر جانی چاہیے اور 'چناؤ اور انتخاب' کا رواج بند ہونا چاہیے۔

9 ستمبر کو جے سی پی کے آٹھ ارکان میں سے چار جسٹس مقبول باقر، جسٹس سردار طارق مسعود، سابق جج دوست محمد خان اور پی بی سی کے نمائندے اختر حسین نے اس خیال کی مخالفت کی تھی جبکہ چیف جسٹس، سینئر جج جسٹس عمر عطا بندیال، وزیر قانون بیرسٹر فرخ نسیم اور اٹارنی جنرل فار پاکستان (اے جی پی) خالد جاوید خان نے جسٹس عائشہ ملک کی حمایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عائشہ کے تقرر کا معاملہ: 'تاریخ لکھ لے کون خواتین کے حقوق کیلئے کھڑا نہیں ہوا'

اس وقت جے سی پی کے ایک اور رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ملک سے باہر تھے۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کو جے سی پی کے اجلاس کے دوران وکلا نے قریبی سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کمپلیکس میں ایک احتجاج اور کنونشن کا بھی اہتمام کیا تھا، جس میں انہوں نے عدلیہ پر تقرریوں میں پسندیدگی کا الزام لگاتے ہوئے اسے عدلیہ کے تصویر خراب کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔

منظور کی گئی قرارداد میں کنونشن نے جے سی پی سے کہا تھا کہ جب تک کہ تمام سطح پر ججوں کی تقرری کے لیے منصفانہ، شفاف اور معروضی معیار نہ ہو جائے وہ صوبائی ہائی کورٹس سے سپریم کورٹ میں عدالتی تقرریوں میں سنیارٹی کے اصول کی سختی سے پابندی کرے جو تمام بار سمیت اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے تیار کیے گئے ہیں اور اس کے ذریعے جوڈیشل کمیشن کے قوانین میں مناسب ترامیم کی گئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں