وزیراعظم قانونی اصلاحات کا مؤثر نفاذ نہ ہونے پر پریشان ہیں، اٹارنی جنرل

اپ ڈیٹ 31 دسمبر 2021
خالد جاوید خان نے کہا کہ حکومت نے پیٹرول، چینی اور مرغی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا — فائل فوٹو / اے پی پی
خالد جاوید خان نے کہا کہ حکومت نے پیٹرول، چینی اور مرغی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا — فائل فوٹو / اے پی پی

اسلام آباد: اٹارنی جنرل آف پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں انکشاف کیا کہ وزیر اعظم عمران خان گزشتہ 3 سال سے ہونے والی قانونی اصلاحات کا مؤثر نفاذ نہ ہونے پر پریشان ہیں۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان حکومتی اداروں اور شہریوں کے درمیان زمین کے تنازعات اور پولیس آرڈر 2002 کے عدم نفاذ سے متعلق سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جب چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے لینڈ مافیا پر قابو پانے میں حکومت کی نااہلی کی نشاندہی کی تو اٹارنی جنرل نے مافیا کو روکنے کے حوالے سے بے بسی کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ نے ڈیفنس کمپلیکس کے اطراف میں دیوار کی تعمیر سے روک دیا

اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت نے پیٹرول، چینی اور مرغی مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا، جب حکومت معاشرے کے کسی طاقتور طبقے کو کسی غیر قانونی چیز پر چیلنج کرتی ہے تو وہ حکومت گرانے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے اور اپنی کوششوں میں سنجیدہ بھی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے سیکریٹری داخلہ سے سرکاری اداروں کے ریئل اسٹیٹ منصوبوں کے بارے میں سوال کیا، انہوں نے کہا کہ ’آپ موٹروے پر جائیں تو وہاں سپریم کورٹ امپلائز کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کا ایک بہت بڑا بل بورڈ نظر آتا ہے‘۔

انہوں نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ، ہاؤسنگ سوسائٹی بھی چلا رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات نے کہا کہ یہ ایک کوآپریٹو سوسائٹی ہے جس کا انتظام وزارت داخلہ کے ملازمین دیکھتے ہیں اور سیکریٹری کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ان کی سرزنش کی اور کہا کہ یہ مفادات کے تصادم کی واضح مثال ہے، اگر سیکریٹری کا اس ہاؤسنگ سوسائٹی سے کوئی تعلق نہیں تھا تو انہوں نے پبلک نوٹس کیوں جاری نہیں کیا یا بغیر اجازت وزارت کا نام استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی؟

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائیکورٹ: ڈی ایچ اے پلاٹس کی الاٹمنٹ منسوخی کے خلاف درخواست دائر

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے انٹیلی جنس بیورو، ایف آئی اے، وزارت داخلہ اور دیگر کئی اداروں کا نام لیا جو ریئل اسٹیٹ کا کاروبار کرتے ہیں اور کہا کہ انہوں نے پولیس کے ساتھ مل کر سرکاری زمین پر قبضہ کیا اور متاثرہ زمین کا مالک معاوضے کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتا رہا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل احسن یونس سے پولیس آرڈر پر عمل درآمد کے بارے میں سوال کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ نامناسب تربیت رکھنے والے افسر کو جرائم کی تفتیش کا طریقہ نہیں معلوم۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ، ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور انسپکٹر جنرل اسلام آباد کو پولیس آرڈر پر عملدرآمد اور نجی اراضی پر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے تجاوزات سے متعلق رپورٹس پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کیس کی سماعت 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔


یہ خبر 31 دسمبر 2021 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں