پنڈورا پیپرز میں شامل پاکستانیوں کے خلاف 80 فیصد تحقیقات مکمل

01 جنوری 2022
ذرائع وزیراعظم آفس نے بتایا کہ کمیشن 240 افراد کے خلاف انکوائری رواں ماہ کے آخر تک مکمل کر لے گا — فائل فوٹو / اے ایف پی
ذرائع وزیراعظم آفس نے بتایا کہ کمیشن 240 افراد کے خلاف انکوائری رواں ماہ کے آخر تک مکمل کر لے گا — فائل فوٹو / اے ایف پی

اسلام آباد: وزیر اعظم کے تحقیقاتی کمیشن (پی ایم آئی سی) نے تہلکہ مچانے والے پنڈورا پیپرز سے متعلق 80 فیصد انکوائری مکمل کرلی ہے جس میں مشہور شخصیات کی آف شور کمپنیز، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری سے متعلق انکشافات کیے گئے ہیں۔

کمیشن نے اپنی تحقیقات میں عوامی عہدہ رکھنے والے افسران، بیوروکریٹس اور جرنیلوں کے بیانات بھی لے لیے ہیں جن کے نام اس پیپرز میں شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمیشن کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی جانب 700 پاکستانیوں کے نام ظاہر کیے گئے تاہم آئی سی آئی جے نے کمیشن کو مزید 240 پاکستانیوں کے نام بھی ارسال کیے ہیں جن کی چھان بین کی جارہی ہے۔

ذرائع وزیراعظم آفس نے ڈان کو بتایا کہ پنڈورا پیپرز کے انکشافات پر پردہ ڈالنے کے تاثر کے برعکس کمیشن 240 افراد کے خلاف انکوائری رواں ماہ کے آخر تک مقررہ ڈیڈ لائن ختم ہونے سے قبل مکمل کرلے گا۔ اس کے بعد کمیشن ان مزید نئے ناموں کے خلاف تحقیقات شروع کرے گا جو آئی سی آئی جے کی جانب سے آئندہ موصول ہونے ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ 240 میں سے 40 افراد عوامی عہدہ رکھنے والے افسران، بیوروکریٹس اور جرنیلز ہیں اور انہوں نے انکوائری کمیشن کو اپنے جوابات جمع کرا دیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کیلئے 'اعلیٰ سطح کا سیل' قائم

کمیشن کا ماننا ہے کہ تمام 240 افراد کو اس وقت تک منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری میں ملوث نہیں پایا جائے گا جب تک انہوں نے بیرون ملک کمپنیاں اور اثاثے بنانے کے لیے منی لانڈرنگ اور ٹیکس سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی نہ کی ہوگی۔

پنڈورا پیپرز میں جن افراد کے نام پہلے ہی سامنے آچکے ہیں ان میں وفاقی کابینہ کے اراکین، ریٹائرڈ سول اور ملٹری افسران، ان کے اہلہ خانہ، بڑے تاجر اور میڈیا ہاؤسز کے مالکان شامل ہیں۔

تاہم خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے تمام افراد قصوروار اس لیے نہیں ہیں کیونکہ ان میں سے بعض نے بیرون ملک آف شور کمپنی بنائی لیکن اثاثے نہیں رکھے اور بعض نے ان کمپنیوں کے ذریعے بزنس کیا لیکن منی لانڈرنگ اور ٹیکس سے متعلق کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، اور بیرون ملک مقیم بعض افراد پر پاکستان کے بجائے انہیں ممالک کے ٹیکس اور دیگر قوانین لاگو ہوتے ہیں۔

وزیر خزانہ شوکت ترین کا پنڈورا پیپرز میں نام سامنے آنے کے بعد انہوں نے وضاحت دی تھی کہ انہوں نے اپنی نجی بینک کے لیے بیرون ملک ایک کمپنی بنائی ہے تاہم اس میں اثاثے نہیں رکھے۔

پنڈورا پیپرز کو دنیا کی سب سے بڑی تحقیقاتی دستاویزات مانا جاتا ہے جس میں دنیا بھر کے صحافیوں نے ملکر کام کیا، اسے 3 اکتوبر 2021 کو منظر عام پر لایا گیا۔ پنڈورا پیپرز میں 50 سے زائد ممالک کے حکمرانوں، بادشاہ، صدور اور وزرائے اعظم کے خفیہ اثاثوں کی تفصیلات ہیں۔

آئی سی آئی جے کے مطابق پنڈورا پیپرز میں ایسے 700 سے زائد پاکستانیوں کے نام شامل ہیں جنہوں نے خفیہ طور پر آف شور کمپنیز اور ٹرسٹ کی مد میں لاکھوں ڈالرز وصول کیے یا کرتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق پنڈورا پیپرز میں انکشافات سامنے آنے کے بعد وزیراعظم کے تحقیقاتی کمیشن کو 240 افراد کے خلاف انکوائری کرنے اور انہیں پرفارما ارسال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی جس پر کمیشن نے ان افراد سے متعلقہ اداروں کو انکوائری میں شامل کر کے 80 فیصد انکوائری مکمل کرلی ہے۔ کمیشن کو ان افراد کے خلاف انکوائری سے روک گیا جن کے ناموں کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔

تحقیقاتی کمیشن نے عوامی عہدہ رکھنے والے افسران، بیوروکریٹس اور جرنیلز کو سات روز میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی تھی جس پر انہوں نے عمل کیا۔

کمیشن کی معاونت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، نادرا، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو شامل ہے۔

مزید پڑھیں: پنڈورا لیکس سے وزیراعظم عمران خان کے مؤقف کو مزید تقویت ملے گی، فواد چوہدری

25 اکتوبر 2021 کو تحقیقاتی کمیشن نے دو صحافیوں کو طلب کیا جو پنڈورا پیپرز کا حصہ تھے اور ان سے ملزمان کے نام اور ان کی آف شور مالی سرگرمیوں سے متعلق تفصیلات طلب کیں۔

تاہم تحقیقاتی کمیشن محض چند ناموں کے اور کوئی خاص معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہا۔

کمیشن نے آئی سی آئی جے سے بھی رابطہ کر کے ملزمان سے متعلق معلومات جاننے کی کوشش کی لیکن کمیشن کو بتایا گیا کہ یہ معلومات صرف صحافیوں کی دی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق کمیشن کو ملزمان کے ناموں کی تصدیق اور اس سے متعلق معلومات حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔

کمیشن کے ایک سینئر حکام نے کہا کہ کمیشن ملزمان کے ناموں کی تصدیق اس لیے نہیں کر سکا کیونکہ نادرا میں انہی ناموں سے ہزاروں شہریوں کے نام شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 240 میں سے 30 سے 35 افراد کا اب تک سراغ نہیں مل سکا ہے لیکن کمیشن دیگر ذرائع اور متعلقہ اداروں کی مدد سے ان افراد کو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں