پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کیلئے 'اعلیٰ سطح کا سیل' قائم

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2021
وزیر اعطم کی ہدایت پر قائم کیا گیا سیل ان پاکستانیوں سے تحقیقات کرے گا جن کے نام دستاویزات میں شامل ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی
وزیر اعطم کی ہدایت پر قائم کیا گیا سیل ان پاکستانیوں سے تحقیقات کرے گا جن کے نام دستاویزات میں شامل ہیں— فائل فوٹو: اے پی پی

وزیراعظم عمران خان نے پینڈورا پیپرز کی تحقیقات کے لیے ایک 'اعلیٰ سطح کا سیل' قائم کردیا ہے جو ان پاکستانیوں سے تحقیقات کرے گا جن کے نام دستاویزات میں شامل ہیں۔

گزشتہ روز جاری کی گئی لاکھوں دستاویزات میں انکشاف کیا گیا کہ کس طرح دنیا بھر کی بڑی بڑی شخصیات نے کروڑوں ڈالر مالیت کے اثاثوں کو چھپانے کے لیے آف شور کمپنیوں کا استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: پینڈورا پیپرز میں کن کن پاکستانیوں کے نام شامل ہیں؟

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کی کہ پنڈورا لیکس کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم پاکستان نے وزیر اعظم انسپکشن کمیشن کے تحت ایک اعلیٰ سطح کا سیل قائم کیا ہے جو پینڈورا لیکس میں شامل تمام افراد سے جواب طلبی کرے گا اور حقائق قوم کے سامنے رکھیں جائیں گے۔

اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس میں پینڈورا پیپرز کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں 3 رکنی تحقیقاتی سیل قائم کرنے کی منظوری دی گئی جس میں ایف بی آر، ایف آئی اے اور نیب کے نمائندے شامل ہوں گے۔

تحقیقاتی صحافیوں کے بین الاقوامی ادارے (آئی سی آئی جے) کی جانب سے اتوار کو انکشاف کیا گیا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان کے کابینہ کے اراکین سمیت وزیر اعظم عمران خان کے اندرونی حلقے کے افراد، کابینہ اراکین کے اہلخانہ، سیاسی اتحادی اور بڑے مالی معاونین، خفیہ طور پر آف شور کمپنیوں اور ٹرسٹس کے مالک ہیں اور بیرون ملک کروڑوں ڈالر کی دولت چھپائے ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پینڈورا پیپرز: میڈیا مالکان، فوجی افسران کے اہلِ خانہ، کاروباری افراد کے مزید ناموں کا انکشاف

آئی سی آئی جے کے مطابق دستاویزات میں ایسا کوئی انکشاف نہیں ہوا کہ عمران خان خود آف شور کمپنیوں کے مالک ہیں۔

قانون کے تحت اگر کمپنی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہ ہو تو آف شور کمپنی قائم کرنا جرم نہیں ہے لیکن جن لوگوں نے ان کمپنیوں کو اپنے گوشواروں میں اثاثے قرار نہیں دیا ہے انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پینڈورا پیپرز میں وزیر خزانہ شوکت ترین اور ان کا خاندان، وزیر آبی وسائل مونس الٰہی، سابق وفاقی وزیر فیصل واڈا اور وزیر اعظم کے سابق مشیر برائے خزانہ و محصولات وقار مسعود خان کے بیٹے کے نام شامل ہیں۔

مذکورہ دستاویزات میں وزیر صنعت و پیداوار خسرو بختیار، پی ٹی آئی رہنما عبدالعلیم خان، پیپلز پارٹی کے شرجیل میمن اور مسلم لیگ (ن) کے اسحاق ڈار کے بیٹے علی ڈار کے خاندان کا بھی ذکر ہے۔

مزید پڑھیں: اردن کی عدالت نے پینڈورا پیپرز کا دعویٰ 'مسخ شدہ'، سیکیورٹی کیلئے خطرہ قرار دے دیا

کچھ ریٹائرڈ فوجی افسران، کاروباری شخصیات بشمول ایگزیکٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شعیب شیخ اور میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے نام بھی فہرست کا حصہ ہیں جبکہ ریکارڈ سے پی ٹی آئی کے ایک اعلیٰ عطیہ کنندہ عارف نقوی کی آف شور کمپنی کا بھی پتا چلتا ہے جنہیں پہلے ہی امریکا میں فراڈ کے الزامات کا سامنا ہے۔

بعد ازاں ایک اور ٹوئٹ میں فواد چوہدری نے کہا تھا کہ بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان کے تمام بڑے میڈیا ہاؤسز کے مالکان کا نام پینڈورا پیپرز میں شامل ہیں اور کئی ایک پر ماضی میں منی لانڈرنگ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات اس ضمن میں شفاف تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے اور پیمرا کو جواب طلبی کے لیے کہا جا رہا ہے۔

اتوار کو ان انکشافات کے منظر عام پر آنے کے چند منٹ بعد ہی وزیر اعظم عمران نے اعلان کیا تھا کہ میری حکومت اپنے ان تمام شہریوں کی جانچ پڑتال کرے گی جن کے نام پینڈورا پیپرز میں آئے ہیں اور اگر کچھ غلط ثابت ہوا تو ہم مناسب کارروائی عمل میں لائیں گے۔

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ ماحولیاتی تغیرات کے بحران کی طرح اس صریح ناانصافی کے تدارک کا بھی بھرپور اہتمام کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: پینڈورا پیپرز میں شامل 300 بھارتیوں میں سچن ٹنڈولکر اور انیل امبانی بھی شامل

عمران خان نے کہا تھا کہ ہم ٹیکس چوری اور بدعنوانی سے جمع کرکے منی لانڈرنگ کے سہارے بیرونِ ملک ٹھکانے لگائی جانے والی اشرافیہ کی ناجائز دولت بے نقاب کرنے والے پینڈورا پیپرز کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا تھا کہ اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو غریب ممالک میں بڑھتی ہوئی غربت کے باعث امیر اور غریب ممالک کے مابین عدمِ مساوات بڑھتی جائے گی جس سے ان غریب ممالک سے امیر ممالک کی طرف معاشی ہجرت کے رجحان میں شدت اور تیزی آئے گی اور دنیا بھر میں معاشی و سماجی عدمِ استحکام میں اضافہ ہو گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں