سپریم کورٹ, بھرتیوں کے عمل کی نگرانی میں سندھ ہائیکورٹ کی 'ناکامی' پر برہم

02 جنوری 2022
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا کہ ماضی کا طریقہ کار جاری رکھنے کی استدعا کا کوئی فائدہ نہیں ہے —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا کہ ماضی کا طریقہ کار جاری رکھنے کی استدعا کا کوئی فائدہ نہیں ہے —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے ماتحت عدلیہ معاون قانونی عملے کی تعیناتی کے عمل کی نگرانی میں ناکامی پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا کہ ماضی کا طریقہ کار جاری رکھنے کی استدعا کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ سابقہ انتظامیہ کی غفلت کو تعیناتی کے عمل میں بے ضابطگیوں کے جواز طور پر نہیں پیش کیا جاسکتا۔

غلام سرورقریشی کی جانب سے اپنے وکیل خواجہ شمس الاسلام کے توسط سے دائر کی گئی ایک درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کی جانب سے یہ ریمارکس سامنے آئے جس میں استدعا کی گئی تھی کہ سندھ کی عدلیہ میں 2017 سے لے کر اب تک کی گئی تمام تعیناتیاں غیر قانونی، غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہونے کے باعث غیر مؤثر اور کالعدم قرار دی جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:ججز پر سرعام تنقید سے ان کا مورال، عوام کا عدلیہ پر بھروسہ متاثر ہوتا ہے، سپریم کورٹ

جس پر سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار (ایڈمن) ، اسسٹنٹ رجسٹرار (سول-2) سپریم کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے نامزد ایک ڈپٹی رجسٹرار پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی تا کہ سندھ ہائی کورٹ رجسٹرار سے کمیٹی کے طلب کردہ موجودہ اور دیگر مواد کا جائزہ لیا جاسکے۔

کمیٹی سندھ کی ضلعی عدلیہ میں عملے کی تقرر کے عمل میں غیر جانبداری، شفافیت اور سندھ جوڈیشل اسٹاف سروس رولز 1992 سمیت قابل اطلاق قواعد کی شرائط سے فرار کی اقسام اور حد کے بارے میں اپنے نتائج کی رپورٹ تیار کرے گی۔

کمیٹی کامیاب امیدواروں کی تعداد اور ڈومیسائل کا معائنہ کرے گی جنہیں عمر یا ڈومیسائل یا دونوں کے سلسلے میں چھوٹ دی گئی یا انتخاب کے عمل کے مراحل میں مختلف شرائط میں استثنیٰ دیا گیا۔

کمیٹی 15 جنوری تک سپریم کورٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی جس کے بعد عدالت اس کیس کی سماعت کرے گی۔

عدالت نے کہا کہ عدالت عظمیٰ کے 2 دسمبر 2021 کے حکم کی تعمیل میں سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار عبدالرزاق نے ایک رپورٹ پیش کی تھی جس کے سرسری جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ ضلعی اور سیشن ججوں نے بغیر کوئی ٹھوس جواز بتائے متعدد کیسز میں عمر اور ڈومیسائل کی چھوٹ کی درخواست کی۔

مزید پڑھیں: سندھ کی عدالتوں میں ’قواعد کی تعمیل‘ کے بغیر بھرتیوں کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل

ایسا کئی اضلاع میں اسٹینو گرافر، کمپیوٹر آپریٹر اور جونیئر کلرک کے عہدوں کے لیے ہوا۔

عمر یا ڈومیسائل میں رعایت طلب کرنے کی وجہ نہ بتانے کا عمل سندھ جوڈیشل اسٹاف سروس رولزکے قاعدہ 14 کی براہ راست خلاف ورزی ہے جو قواعد میں نرمی سے متعلق ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر چیف جسٹس اس بات پر مطمئن ہوں کہ قوانین کا سختی سے اطلاق متعلقہ فرد کے لیے غیر ضروری مشکلات کا باعث بنے گا توتحریری طور پر درج کی جانے والی وجوہات کی بنا پر ان قوانین میں نرمی کی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ رپورٹ میں یہ بھی واضح ہوا کہ اسٹینو گرافر کی مہارت کی جانچ کے لیے شارٹ ہینڈ اور ٹائپنگ ٹیسٹ ضلعی سلیکشن کمیٹیوں کے ذریعے کرائے گئے۔

تاہم سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے یہ بھی اعتراف کیا کہ یہ ٹیسٹ کچھ اضلاع میں نشان زد نہیں تھے جبکہ کسی ضلع میں ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔

سپریم کورٹ نے مزید کہا کہ اس قسم کے ریکارڈ کی عدم دستیابی سے ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ جوڈیشل اسٹاف سروس رولزکے اصول 8 کے باوجود اسامیوں کے لیے قابل اعتماد مہارت کے ٹیسٹ نہیں لیے گئے جس کے تحت اسٹینو گرافرز کے لیے متعلقہ شعبے میں خاص قابلیت ضروری ہے ۔

یہ بھی پڑھیں:ماتحت عدالتیں معاملات صحیح طریقےسے دیکھیں تو یہ سپریم کورٹ تک نہ آئیں، چیف جسٹس

اسی طرح سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کی رپورٹ میں سندھ کی ضلعی عدلیہ میں 2017 سے اب تک کی مدت کے لیے ہونے والی تعیناتیوں کی ضلع وار تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے مطابق یہ اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ضلعی عدلیہ میں عملے کی تعیناتی کا عمل بے ضابطگیوں سے بھرا ہوا تھا۔   اسی طرح کچھ دیگر اسامیوں جیسے جونیئر کلرک گریڈ 11، بیلف گریڈ 5 اور سی سی ٹی وی آپریٹرز گریڈ5 پر تقرر میں بھی کچھ بے ضابطگیاں نظر آئیں کیونکہ نہ تو کوئی انٹری ٹیسٹ لیا گیا اور نہ ہی مارکنگ اسکیم تیار کی گئی تھی۔

اسی طرح ہارڈویئر اور نیٹ ورکنگ ٹیکنیشن گریڈ 14، کمپیوٹر آپریٹر گریڈ 12 اور جونیئر کلرک گریڈ 11 کی اسامیوں پر ایسے امیدواروں کو تعینات کیا گیا جنہوں نے امتحان میں پاسنگ مارکس بھی حاصل نہیں کیے تھے۔

بعض سینیئر عہدوں یعنی اسٹینو گرافر گریڈ 16، کمپیوٹر آپریٹر گریڈ 12، اور جونیئر کلرک گریڈ 11 کے امیدواروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے انٹرویوز میں کوئی مارکنگ اسکیم استعمال نہیں کی گئی۔

مزید پڑھیں: ’ماتحت عدلیہ کے فیصلے کے خلاف کیسز کی دوبارہ تحقیقات وقت کا ضیاع ہے‘

مزید برآں اسٹینو گرافر، جونیئر کلرک اور بیلف جیسے عہدوں کے لیے انٹرویوز کی مارکنگ اسکیم کو ختم کر دیا گیا، کراچی کے ضلع مشرقی میں تقریباً تمام اسامیوں کے لیے اخبارات میں اشتہار بھی نہیں دیا گیا۔

جب رجسٹرار سے رپورٹ سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے تسلیم کیا کہ یہ کوتاہیاں امیدواروں کو ملازمت دینے میں ملوث حکام کی جانب سے کی گئی تھیں لیکن سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی کیونکہ اس سلسلے میں کبھی کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔

تاہم رجسٹرار نے یقین دلایا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت پر عمل کیا جائے گا تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیوں کو دوبارہ رونما ہونے سے روکا جا سکے۔   رجسٹرار سندھ ہائی کورٹ نے سینئر وکیل منیر اے ملک کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ضلعی اور سیشن ججز نے 2017 اور اس کے بعد عمر اور ڈومیسائل میں رعایت کے لیے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بلاجواز درخواستیں بھیجنے کا جو طریقہ کار اختیار کیا ہے وہ ہائی کورٹ کے ماضی کے طرز عمل سے مطابقت رکھتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں