نجی ٹیسٹنگ سروس کے ذریعے سندھ حکومت میں 21 ہزار 300 بھرتیوں پر حکم امتناع

06 جنوری 2022
کنور نوید جمیل کے ساتھ 5 اراکینِ صوبائی اسمبلی نے  سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: وکیمیڈیا
کنور نوید جمیل کے ساتھ 5 اراکینِ صوبائی اسمبلی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی—فائل فوٹو: وکیمیڈیا

سندھ ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کے مختلف محکموں میں گریڈ 1 سے گریڈ 15 پر 21 ہزار افراد کی بھرتیوں کے عمل پر آئندہ سماعت تک کے لیے حکم امتناع جاری کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس سید اظہر رضوی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے صوبائی حکام نے جنوری اور فروری 2020 میں صوبائی کابینہ کے فیصلوں کو نوٹیفائڈ کرنے کے لیے جاری کردہ 2 نوٹیفکیشنز اور 30 سے زائد محکموں میں 21,300 سے زائد اسامیوں کو پر کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

بینچ نے چیف سیکریٹری سندھ کے علاوہ سروسز، جنرل ایڈمنسٹریشن اینڈ کوآرڈینیشن، یونیورسٹیز اینڈ بورڈز، سندھ پبلک سروس کمیشن کے سیکریٹریز کے ساتھ ساتھ ایڈووکیٹ جنرل کو بھی آئندہ سماعت کے لیے نوٹسز جاری کردیے جو سرمائی تعطیلات کے بعد تیسرے ہفتے میں ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائی کورٹ نے 1500 کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کی درخواستیں خارج کردیں

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینیئر رہنما کنور نوید جمیل کے ساتھ 5 اراکینِ صوبائی اسمبلی نے سندھ ہائی کورٹ سے مذکورہ دونوں نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کی درخواست کی تھی۔

درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ فریقین کو یہ نوٹیفکیشنز جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں، انہوں نے یہ آئین اور قابلِ اطلاق قوانین کی خلاف ورزی میں کیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ گریڈ-1 سے گریڈ-15 کی 21 ہزار 300 اسامیوں پر ٹینڈر طلب کیے، اوپن میرٹ پر بولیوں، خریداری کے منصوبے کے علاوہ متعلقہ قوانین اور سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2010 کی شرائط پر عمل کیے بغیر بھرتیاں کی گئیں۔

مزید پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ میں قواعد کی ’مکمل تعمیل‘ کے بغیر بھرتیوں کی وضاحت طلب

درخواست گزاروں کے وکلا طارق منصور نے دلیل دی کہ 24 دسمبر 2019 کو صوبائی کابینہ نے نہ صرف امیدواروں کے انتخاب کا طریقہ کار مقرر کیا تھا بلکہ پروکیورمنٹ ایکٹ اور ایس پی ایس سی ایکت کی خلاف ورزی میں ٹیسٹنگ سروس کو بھی شارٹ لسٹ کیا تھا جو ایس پی ایس سی کی ذمہ داری تھی۔

وکیل کا کہنا تھا کہ پہلے نوٹیفکیشن میں کابینہ کے فیصلے نوٹیفائڈ کیے گئے جبکہ دوسرے میں تمام متعلقہ محکموں کے سربراہان کو کوئی ٹینڈر جاری کیے یا طریقہ کار پر عمل کیے بغیر انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سکھر کے ذریعے بھرتیاں کرنے کی ہدایت کی گئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں نوٹیفکیشن بدنیتی کے ارادے سے جاری کیے گئے جو شفافیت، میرٹ، آئین کی متعدد دفعات اور متعلقہ قواعد و قوانین کی خلاف ورزی تھے۔

یہ بھی پڑھیں:سندھ کی عدالتوں میں ’قواعد کی تعمیل‘ کے بغیر بھرتیوں کا جائزہ لینے کیلئے کمیٹی تشکیل

24 دسمبر 2019 کو صوبائی کابینہ کو چیف سیکریٹری نے بھرتی کے عمل سے متعلق کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی پیشرفت کے بارے میں کابینہ کو بریفنگ دی کہ تمام محکموں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ گریڈ-1 سے گریڈ-5 تک کی غیر تکنیکی آسامیوں پر بھرتی کا عمل شروع کریں۔

سروس سیکریٹری نے کابینہ کو آگاہ کیا تھا کہ گریڈ 6 سے گریڈ 15 کی اسامیوں پر بھرتیوں کے عمل کو حتمی شکل دینے اور آئی بی اے کراچی اور سکھر سے ریگولر ٹیسٹنگ سسٹم کے لیے تعاون کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ کابینہ نے آئی بی اے سکھر سے ٹیسٹس کی تجویز اور مارکس کی فیصد کی منظوری دے دی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں