وارننگ دیے بغیر مسلح شرپسندوں کو گولی مار دیں، قازقستان کے صدر کا حکم

اپ ڈیٹ 07 جنوری 2022
قازقستان کے صدر قسیم جومارت نے اس ہفتے میں تیسرا مرتبہ صدارتی خطاب کیا—
قازقستان کے صدر قسیم جومارت نے اس ہفتے میں تیسرا مرتبہ صدارتی خطاب کیا—

قازقستان کے صدر قسیم جومارت نے ملک میں جاری پرتشدد واقعات کے دوران مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کو حکم دیا ہے کہ وہ مسلح افراد کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کسی وارننگ کے بغیر گولی مار دیں۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق قوم سے اپنے خطاب میں قسیم جومارت نے روس کے صدر ولادمیر پیوٹن کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس تنازع سے نمٹنے کے لیے قازقستان کو عسکری مدد فراہم کی ہے۔

مزید پڑھیں: قازقستان میں تیل کی بڑھتی قیمتوں کے خلاف عوام کا احتجاج، حکومت برطرف

سیکیورٹی فورسز نے ملک کے سب سے بڑے شہر اور ان مظاہروں اور احتجاج کے مرکز الماتی کا مکمل طور پر حصار کیا ہوا ہے اور اگر کوئی اس علاقے کے قریب آتا ہے تو وہ ہوائی فائرنگ شروع کردیتے ہیں۔

علاقے میں ہو کا علم ہے کیونکہ تمام دکانیں، ریسٹورنٹ اور سپرمارکیٹس سمیت دیگر چیزیں بند ہیں جبکہ جو دکانیں کھلی ہیں ان میں اشیا بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہیں۔

رواں ہفتے اپنے تیسرے ٹیلیویژن خطاب میں انہوں نے احتجاج کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد مستقل املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور شہریوں پر ہتھیاروں کا استعمال کررہے ہیں، میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دیا ہے کہ ایسے لوگوں کو کوئی وارننگ دیے بغیر گولی مار دیں۔

انہوں عالمی طاقتوں کی جانب سے مذاکرات کی کوششوں کو بکواس قرار دیا اور کہا کہ ہمیں مقامی اور غحیرملکی مسلح اور تربیت یافتہ غنڈوں کا سامنا ہے لہٰذا ان غنڈوں اور دہشت گردوں سے ہم ختم کردیں گے اور ایسا بہت جلد ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: قازقستان کے صدر نے خاتون سینیٹ چیئرمین کو عہدے سے ہٹا دیا

واضح رہے کہ قازقستان کو اپنی تاریخ میں کبھی بھی اس حد تک بدترین توانائی کے بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور عوام اسی کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔

بدھ کو مظاہرین نے حکومتی عمارتوں اور املاک پر دھاوا بول دیا تھا اور ان کی پولسی اور فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔

وزارت داخلہ کے مطابق اس تنازع کے دوران اب تک 26 مسلح ملزمان ہو چکے ہیں حالانکہ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 سے زائد ہو سکتی ہے۔

وزارت داخلہ کے نمائندے نے مزید کہا کہ 18 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی مارے گئے اور 700 سے زائد زخمی ہوئے جبکہ پرتشدد احتجاج میں ملوث 3800 کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

قازقستان کی اصل صورتحال اس لیے واضح نہیں کہوہاں انٹرنیٹ کی بندش ہونے کے ساتھ ساتھ فون کے سگنلز بھی بند ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران: سیستان میں مقابلے کے دوران 5 ’ڈاکو‘، 3 فوجی اہلکار ہلاک

مغربی ممالک نے قازقستان کی حکومت سمیت تمام فریقین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور لوگوں کے ہرامن احتجاج کا احترام کریں۔

البتہ چین کے صدر ژی جن پنگ نے اپنے قازق ہم منصب کے اس اقدام کو سراہا۔

واضح رہے کہ قازقستان میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف جاری شدید اور پرتشدد عوامی احتجاج کے بعد صدر نے حکومت کو برطرف کردیا تھا۔

قازقستان بڑھتی ہوئی قیمتوں کے دباؤ سے نمٹ رہا ہے، افراط زر کی شرح سال ہا سال بنیادوں پر 9فیصد رہی جو گزشتہ پانچ سال کے دوران بلند ترین سطح ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں