طالبان پر تنقید کرنے پر افغان پروفیسر کو گرفتار کرلیا گیا

09 جنوری 2022
پروفیسر فیض اللہ جلال—تصویر: خاما پریس/ ٹوئٹر
پروفیسر فیض اللہ جلال—تصویر: خاما پریس/ ٹوئٹر

طالبان حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا ہے کہ حکومت پر کھل کر تنقید کرنے والے افغان یونیورسٹی کے ایک ممتاز پروفیسر فیض اللہ جلال کو کابل میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

اگست میں امریکی حمایت یافتہ سابقہ ​​حکومت کے خاتمے کے بعد سے پروفیسر فیض اللہ جلال نے ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں کئی بار شرکت کی، انہوں نے طالبان کو بگڑتے ہوئے مالیاتی بحران کا ذمہ دار ٹھہرایا اور ان پر طاقت کے ذریعے حکومت کرنے پر تنقید کی۔

اقتدار میں واپسی کے بعد سے طالبان نے اختلاف رائے رکھنے والوں پر کریک ڈاؤن کیا ہے، خواتین کے حقوق کے احتجاج کو زبردستی منتشر کیا ہے اور کئی افغان صحافیوں کو مختصر دورانیے کے لیے حراست میں بھی لیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ایے ایف پی کے مطابق طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹویٹ کیا کہ پروفیسر جلال کو ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر دیے گئے بیان پر حراست میں لیا گیا ہے، ان بیانات میں وہ ’لوگوں کو نظام کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہے تھے اور لوگوں کے وقار سے کھیل رہے تھے‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا ہے تاکہ دیگر لوگ پروفیسر یا اسکالر ہونے کے نام پر ایسے تبصرے نہ کریں جس سے دوسروں کے وقار کو نقصان پہنچے‘۔

ذبیح اللہ مجاہد نے ان ٹویٹس کے اسکرین شاٹس شیئر کیے جن کے بارے میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ پروفیسرجلال نے پوسٹ کی تھیں، ان ٹوئیٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان انٹیلی جنس چیف پاکستان کا کٹھ پتلی ہے، اور نئی حکومت افغانوں کو ’گدھا‘ سمجھتی ہے۔

ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں پروفیسر جلال نے طالبان کے ترجمان محمد نعیم کو جو اس پروگرام میں موجود تھے کو ’بچھڑا‘ کہہ دیا تھا جوکہ افغانستان میں بے عزتی سمجھا جاتا ہے۔

ان کی پرجوش تنقید کے کلپس سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئے تھے، جس سے خدشات پیدا ہوئے کہ وہ طالبان کے انتقام کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔

مزید پڑھیے: افغان طالبان کا پوسٹرز کے ذریعے خواتین کو پردہ کرنے کا حکم

پروفیسر جلال کی اہلیہ مسعودہ جو افغانستان کی پہلی صدارتی امیدوار بھی تھیں نے فیس بک پر لکھا کہ ان کے شوہر کو طالبان نے گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر حراست میں رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ڈاکٹر جلال نے انسانی حقوق سے متعلق اپنی تمام سرگرمیوں میں انصاف اور قومی مفاد کے لیے جدوجہد کی اور بات کی ہے‘۔

کابل یونیورسٹی میں قانون اور سیاسیات کے طویل عرصے تک پروفیسر رہنے والے پروفیسر جلال کو افغانستان کے رہنماؤں کے ناقد کے طور پر شہرت حاصل ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’اظہار رائے کی آزادی کے استعمال اور طالبان پر تنقید پر‘ پروفیسر جلال کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔

طالبان نے صرف مردوں پر مشتمل ایک کابینہ تشکیل دی ہے جس میں صرف طالبان اراکین اور خاص طور پر پشتون شامل ہیں۔

انہوں نے خواتین کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کو مزید محدود کر دیا ہے جس کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں