عالمی برادری بھارت میں مسلمانوں کے خلاف انتہاپسندوں کی کال کا نوٹس لے، وزیر اعظم

اپ ڈیٹ 10 جنوری 2022
بھارت کی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے پیچھے حکمران بی جے پی حکومت کا ’انتہا پسند نظریہ‘ ہے — فائل فوٹو / آر ٹی
بھارت کی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے پیچھے حکمران بی جے پی حکومت کا ’انتہا پسند نظریہ‘ ہے — فائل فوٹو / آر ٹی

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ مودی حکومت خطے کے ’امن کے لیے ایک حقیقی اور موجودہ خطرہ‘ ہے جبکہ بھارت میں تمام اقلیتیں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی سرپرستی میں کام کرنے والے انتہا پسند گروپوں کے نشانے پر ہیں۔

گزشتہ ماہ بھارت میں کئی انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے رہنماؤں نے ملک میں اقلیتوں کی نسلی کشی کا اعلان کیا تھا جس کا خاص طور پر نشانہ ملک کی 20 کروڑ مسلمان آبادی تھی۔

دی کوئنٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ہندوتوا کے رہنما یاتی نرسنگھانند نے 17 سے 19 دسمبر تک اتراکھنڈ کے یاتری شہر ہریدوار میں نفرت انگیز تقاریر سے بھرپور اجتماع کا اہتمام کیا تھا، جہاں اقلیتوں کا قتل کرنے اور ان کے مذہبی مقامات پر حملہ کرنے کی جانب اکسایا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مسلمانوں کے قتل عام کی ہدایت کرنے پر ہندوتوا اجتماع کی تحقیقات

وزیر اعظم عمران نے آج ایک سلسلہ وار ٹوئٹس میں مودی کو ان کی ’مسلسل خاموشی‘ اور انتہا پسند ہندوتوا گروپوں کے خلاف بے عملی پر تنقید کا نشانہ بنایا جو ملک میں اقلیتوں کی نسل کشی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بھارت کی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے پیچھے حکمران بی جے پی حکومت کا ’انتہا پسند نظریہ‘ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’بھارتیہ جنتا پارٹی کی مودی سرکار کے شدت پسندانہ نظریے کے سائے میں ہندوتوا جتھے پوری ڈھٹائی اور آزادی سے بھارت میں تمام مذہبی اقلیتوں پر حملہ آور ہیں‘۔

وزیر اعظم نے مودی حکومت کی مسلسل خاموشی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی حکومت اقلیتوں کے خلاف انتہا پسندوں کی ترغیب کی حامی ہے۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف انتہاپسندوں کی ان اپیلوں کا نوٹس لے اور اس کے خلاف کارروائی کرے۔

مزید پڑھیں: 'نفرت انگیز تقاریر'، ہندوتوا رہنماؤں کی مسلمانوں کے قتل عام کی ہدایات

اکتوبر میں دی پرنٹ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، ہندو رہنما نرسنگھ نند پر کئی مواقع پر مسلم کمیونٹی کے خلاف فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔

این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق ہندو رکشا سینا کے صدر سوامی پربودھانند گیری نے کہا کہ ’میانمار کی طرح، ہماری پولیس، ہمارے سیاست دان، ہماری فوج اور ہر ہندو کو ہتھیار اٹھانا ہوں گے اور صفائی ابھیان (نسل کشی ) کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا ہے۔‘

سیاسی جماعت ہندو مہاسبھا کی جنرل سکریٹری سادھوی اناپورنا نے بھی ہتھیاروں اور نسل کشی پر اکسانے کی ترغیب دی تھی۔

دی وائر نے ان کی تقریر کا حوالہ دیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہتھیاروں کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں، اگر تم ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہو تو انہیں مار دو، مارنے کے لیے تیار ہو جاؤ اور جیل جانے کے لیے تیار رہو، یہاں تک کہ اگر ہم میں سے 100 لوگ بھی ان میں سے 20 لاکھ (مسلمانوں) کو مارنے کے لیے تیار ہو جائیں، تب بھی ہم جیت جائیں گے اور جیل جائیں گے۔‘

یہ بھی پڑھیں: مودی کی کامیابی، بھارت کو ’ہندو ریاست‘ کی شناخت دینے کا مشن مکمل؟

رپورٹ کے مطابق مذہبی رہنما سوامی آنندسوروپ نے ایک مثال دی کہ سڑک پر مسلمان دکانداروں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ’میں جس گلی میں رہتا ہوں وہاں ہر صبح مجھے ایک ملا نظر آتا تھا جس کی داڑھی ہے اور آج کل وہ زعفرانی داڑھی رکھتا ہے۔ یہ ہریدوار ہے مہاراج، یہاں کوئی مسلمان خریدار نہیں ہے، اس لیے اس شخص کو اٹھا کر باہر پھینک دو۔‘

دی وائر نے لکھا کہ اس تین روزہ سربراہی اجلاس میں حکمران جماعت کی طرف سے سیاسی حوصلہ افزائی کے لیے بی جے پی رہنما اشونی اپادھیائے اور بی جے پی مہیلا مورچہ کی رہنما ادیتا تیاگی نے بھی شرکت کی۔

تاہم انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئےاشونی اپادھیائے نے کہا ’یہ تین روزہ پروگرام تھا اور میں وہاں ایک دن کے لیے گیا تھا، اس دوران میں تقریباً 30 منٹ تک اسٹیج پر رہا اور آئین کے بارے میں بات کی، اس سے پہلے اور بعد میں دوسروں نے کیا کہا، میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں