برطانوی وزیراعظم نے لاک ڈاؤن کے باوجود تقریب میں شرکت پر معافی مانگ لی

13 جنوری 2022
بورس جانسن نے اعتراف کیا کہ وہ تقریباً 25 منٹ تک تقریب میں موجود تھے —فوٹو: رائٹرز
بورس جانسن نے اعتراف کیا کہ وہ تقریباً 25 منٹ تک تقریب میں موجود تھے —فوٹو: رائٹرز

برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے لاک ڈاؤن کے باوجود ڈاوننگ اسٹریٹ گارڈن میں منعقدہ تقریب میں شرکت کرنے پر معذرت کرلی۔

تاہم اپوزیشن لیڈر نے برطانوی وزیراعظم کو ‘بے شرم آدمی‘ قرار دیتے ہوئے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق کئی دنوں سے مایوس کن خبروں کی لپیٹ میں رہنے اور پول ریٹنگ گرنے کے بعد بورس جانسن نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ وہ مئی 2020 میں ہونے والی اس پرلطف تقریب کو ڈاؤننگ اسٹریٹ کے عملے کے لیے ایک ورک ایونٹ سمجھتے ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ اپنے اس عمل کی وضاحت ان لاکھوں برطانوی شہریوں کے سامنے نہیں کر سکتے جو کووڈ قوانین کا احترام کر رہے تھے، حتی کہ اپنے مرنے والے رشتہ داروں کی آخری رسومات میں شرکت سے بھی محروم رہے۔

بورس جانسن نے ہاؤس آف کامنز میں تند و تیز سوالات سے بھرپور سیشن کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’میں ان لوگوں سے اور اس ایوان سے دلی معذرت کرتا ہوں۔‘

یہ بھی پڑھیں: ’لاک ڈاؤن کے بجائے لاشوں کے انبار‘ کے متنازع بیان پر برطانوی وزیراعظم پر کڑی تنقید

انہوں نے کہا کہ ’بہتر یہی تھا کہ مجھے اس پارٹی میں شریک لوگوں کو واپس اندر بھیج دینا چاہیے تھا، مجھے اپنے عملے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی اور طریقہ اپنانا چاہیے تھا۔‘

انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے مزید بتایا کہ وہ تقریباً 25 منٹ تک وہاں موجود تھے۔

مرکزی اپوزیشن جماعت لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر نے کہا کہ ’عوام کا خیال ہے کہ بورس جانسن جھوٹ بول رہے ہیں‘۔

پہلی بار بورس جانسن کی برطرفی کے مطالبے میں اپوزیشن کے دیگر رہنماؤں کا ساتھ دیتے ہوئے کیئر اسٹارمر کا کہنا تھا کہ ’سوال صرف یہ ہے کہ کیا برطانیہ کے عوام وزیر اعظم کی اس حرکت پر انہیں نکال دیں گے؟ کیا ان کی پارٹی انہیں نکال باہر کرے گی؟ یا وہ مہذب انداز اپناتے ہوئے خود مستعفی ہوجائیں گے؟‘

کیئر اسٹارمر نے مزید کہا کہ ’وزیر اعظم بورس جانسن بے شرم آدمی ہیں‘۔

پچھلی دو ملازمتوں میں باس سے جھوٹ بولنے پر برطرف کیے جانے والے بورس جانسن، وزیر اعظم بننے کے بعد کورونا اموات کی بدترین لہر کو بڑے پیمانے پر کامیاب ویکسی نیشن مہم کے ذریعے قابو کرنے میں کامیاب رہے۔

مزید پڑھیں: برطانوی وزیراعظم نے ایک ماہ بعد ذمہ داریاں سنبھال لیں

یورپی یونین سے برطانیہ کے انخلا پر اثر انداز ہونے کا کریڈٹ بھی بورس جانسن کے پاس ہے۔

کورونا وبا سے متاثر ہونے والے خاندانوں کے لیے انصاف طلب کرنے والے گروپ کی ترجمان ہننا بریڈی کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم کا جھوٹ بالآخر ان کے گلے پڑگیا ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’میرے جیسے کئی سوگوار خاندانوں کے سامنے اپنے ہی مقرر کردہ اصولوں کو توڑ کر اور پھر اس کے بارے میں ہم سے جھوٹ بول کر بھی بورس جانسن مطمئن نہیں ہوئے، اب وہ برطانوی عوام کو یہ بہانہ بنا کر بیوقوف بنا رہے ہیں کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ یہ پارٹی تھی‘۔

بورس جانسن کے اپنے کئی ساتھی بھی ان کی برطرفی چاہتے ہیں۔

کیئر اسٹارمر کے جواب میں بورس جانسن نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ انکوائری کے نتائج کا انتظار کریں جو انہوں نے ایک سینئر سرکاری ملازم کی سربراہی میں قائم کی ہے۔

وزیر اعظم کے پریس سیکریٹری نے صحافیوں کو بتایا کہ ’بورس جانسن استعفیٰ نہیں دے رہے ہیں‘

برطانوی وزیراعظم کی 2020 میں لاک ڈاؤن کے دوران منعقد ہونے والی ڈاؤننگ اسٹریٹ پارٹی میں شرکت سے عوام میں شدید غصہ پیدا ہوا جس کی وجہ سے بورس جانسن پچھلے ایک سال سے الزامات کی بوچھاڑ کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: برطانوی وزیراعظم بھی کورونا کا شکار

مئی 2020 میں لیزا ولکی انتہائی نگہداشت میں داخل اپنے کورونا سے متاثر بھائی کی ویڈیو فلم بنانے پر مجبور ہوگئی تھیں کیونکہ ان کی والدہ کو کورونا پابندیوں کے سبب ہسپتال جانے کی اجازت نہیں تھی۔

لیزا ولکی نے روتے ہوئے ’بی بی سی‘ کو بتایا کہ ’لوگ کورونا پابندیوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے دم توڑ گئے اور وزیراعظم نے شراب کی ایک بوتل کی خاطر ان قوانین کو توڑ ڈالا‘۔

لاک ڈاؤن کے دوران پارٹی میں وزیر اعظم کی شرکت پر آنے والے ردعمل کی طرح اب ان کی معافی پر بھی تنقید سے بھرپور ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔

سینئر کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ راجر گیل نے کہا کہ اب یہ واضح ہوگیا ہے کہ بورس جانسن نے پارلیمنٹ کو گمراہ کیا تھا اور سیاسی طور پر ان کی شخصیت مردہ ہوچکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے وزیر اعظم نے آج جو کچھ کہا ہے اس نے مجھ جیسے لوگوں کو ایک مشکل صورتحال میں ڈال دیا ہے‘۔

راجر گیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹوری بیک بینچرز اب (وزیراعظم کے خلاف) عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن انتہائی نگہداشت یونٹ منتقل

کنزرویٹو پارٹی کے ایک اور قانون ساز نائجل ملز نے کہا کہ ’اگر وزیر اعظم نے جان بوجھ کر کسی پارٹی میں شرکت کی تھی تو میں نہیں سمجھتا کہ وہ کیسے اس عہدے پر برقرار رہتے ہیں، انہیں استعفے کا مطالبہ قبول کر لینا چاہیے تھا۔‘

پیر کی رات اس ای میل کا لیک ہونا وزیر اعظم بورس جانسن کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا جس میں ایک سینئر معاون نے 100 سے زیادہ ساتھیوں کو 20 مئی 2020 کو ہونے والے پروگرام میں مدعو کیا تھا اور انہیں اپنی شراب ساتھ لانے کی ترغیب دی۔

یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا تھا جب حکومت عوام کو کھلے مقامات پر بھی ملاقاتیں نہ کرنے کا حکم دے رہی تھی، اور جنازوں سمیت سماجی میل جول پر سخت پابندیاں عائد تھیں۔

یہ پارٹی کورونا سے متاثر بورس جانسن کے انتہائی نگہداشت سے باہر آنے کے صرف ایک ماہ بعد منعقد کی گئی تھی، اور کچھ رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ وہ اس بات سے واقف تھے کہ اس پارٹی کا انعقاد ان کی واپسی پر ’ویلکم بیک‘ ایونٹ کے طور پر کیا گیا تھا۔

اس وقت پولیس کورونا قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر جرمانے عائد کر رہی تھی اور ان کے پاس بار بار قانون توڑنے یا سنگین خلاف وزریوں میں ملوث مجرمان کے خلاف مقدمہ چلانے کا بھی اختیار تھا۔


یہ خبر 13 جنوری 2022 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں