سانحہ اے پی ایس کیس: حکومت نے رپورٹ جمع کروانے کیلئے ایک بار پھر مہلت طلب کرلی

13 جنوری 2022
عدالت نے گزشتہ ماہ بھی وفاقی حکومت کو تین ہفتے کا وقت دینے کی استدعا منظور کی تھی— فائل فوٹو: اے پی
عدالت نے گزشتہ ماہ بھی وفاقی حکومت کو تین ہفتے کا وقت دینے کی استدعا منظور کی تھی— فائل فوٹو: اے پی

سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کیس سے متعلق رپورٹ جمع کروانے کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا۔

اٹارنی جنرل آفس کی جانب سے سپریم میں دائر کردہ درخواست میں وزیراعظم کی دستخط شدہ رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید 3 ہفتے دینے کا استدعا کی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ وزیراعظم کی کمیٹی شہداء کے والدین سے ایک ملاقات کر چکی ہے والدین سے ایک اور ملاقات جلد متوقع ہے تاکہ انہیں مطمئن کیا جا سکے۔

یاد رہے سپریم کورٹ نے 10 نومبر کو وزیراعظم سے سانحہ اے پی ایس کے متاثرہ خاندانوں کو مطمئن کرنے کے حوالے ایک ماہ میں پیشرفت رپورٹ طلب کی تھی۔

مزید پڑھیں: اے پی ایس حملہ کیس: حکومت نے رپورٹ جمع کرانے کیلئے 3 ہفتوں کی مہلت مانگ لی

عدالت نے گزشتہ ماہ بھی وفاقی حکومت کو تین ہفتے کا وقت دینے کی استدعا منظور کی تھی۔

عدالت کے گزشتہ احکامات کے مطابق حکومت نے 10 دسمبر تک وزیر اعظم عمران خان کی دستخط شدہ رپورٹ جمع کروانی تھی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے عدالت عظمیٰ میں 3 صفحات پر مبنی رپورٹ جمع کروائی جس میں بتایا گیا ہے کہ عدالت کے احکامت کے مطابق وزیر اعظم نے سانحہ اے پی ایس میں جاں بحق ہونے والے طلبہ کے لواحقین سے ملنے اور ان کے مطالبات سننے کے لیے 4 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔

اٹارنی جنرل پاکستان خالد جاوید خان یا ان کا نامزد کردہ فرد اور وزارت دفاع اور داخلہ کے ایڈیشنل سیکریٹریز کمیٹی کے اجلاسوں میں خصوصی شرکت کریں گے۔

10 نومبر کو ہونے والی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں قائم 3 رکنی بینچ نے حکم دیا تھا کہ حکومت، متاثرہ والدین کی بات سنے اور 4 ہفتوں کے اندر وزیر اعظم کی دستخط شدہ رپورٹ عدالت میں پیش کریں۔

مزید پڑھیں: سانحہ اے پی ایس: کب کیا ہوا؟

سپریم کورٹ رولز کے رول 6 آرڈر 33 کے تحت دائر کردہ حکومتی درخواست میں والدین کے ساتھ کابینہ کی کمیٹی کی ملاقات کے نتائج کو رپورٹ میں شامل کرنے کی بھی اجازت طلب کی گئی ہے۔

اپنے گزشتہ حکم میں عدالت کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے عدالت کے سامنے بیان دیا تھا کہ حکومت اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے اور والدین کو انصاف کی فراہمی اور واقعے کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہے۔

حکم نامے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت اس قتل عام کے ذمہ داروں اور اس حوالے سے کوتاہی برتنے والوں سے ضرور نمٹے گی۔

یہ دیکھا گیا ہے کہ اے پی ایس طلبہ کے والدین اپنے بچوں کی موت کو قبول کرنے سے قاصر تھے اور انہوں نے بعض افراد کو فرائض سے غفلت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کمیشن رپورٹ: سانحہ آرمی پبلک اسکول 'سیکیورٹی کی ناکامی' قرار

20 اکتوبر کے حکم نامے میں یہ کہا گیا تھا جاں بحق طلبہ کی ماؤں نے یہ شکایت کی ہے کہ اے پی ایس پشاور کی سیکیورٹی کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے افراد سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی اور نہ ہی انہیں اپنی ذمہ داری سے غفلت برتنے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا، اس غفلت کے نتیجے میں 147 معصوم بچوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

ان ماؤں کا کہنا تھا کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک، کور کمانڈر پشاور حدایت الرحمٰن، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ظہیر الاسلام اور سیکریٹری داخلہ اختر علی شاہ وہ لوگ تھے جنہیں اس حملے کی پہلے سے اطلاع ہوسکتی تھی لیکن انہوں نے اپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتی جس کے نتیجے میں اسکول میں طلبہ کا قتل عام ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں