ناظم جوکھیو قتل میں نامزد پانچ ملزمان احاطہ عدالت سے فرار

اپ ڈیٹ 14 جنوری 2022
ناظم جوکھیو کو رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس پر بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
ناظم جوکھیو کو رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس پر بدترین تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا تھا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رکن اسمبلی جام اویس بجڑ کے فارم ہاؤس میں قتل کیے گئے ناظم جوکھیو کے مقدمے میں جج کی جانب سے ضمانت مسترد کیے جانے کے بعدنامزد پانچ ملزمان احاطہ عدالت سے فرار ہو گئے۔

رکن صوبائی اسمبلی جام اویس، ان کے بڑے بھائی اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم سمیت ان کے ملازموں بشمول محمد سلیم سالار، محمد سومر عرف کلرک، محمد اسحٰق جوکھیو، محمد خان جوکھیو اور دودا خان عرف دادا پر ناظم جوکھیو کو اغوا اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرنے کا الزام ہے۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کی نئی ٹیم تشکیل

مقتول کے بھائی افضل جوکھیو نے 27 سالہ ناظم جوکھیو کے قتل کے مقدمے میں رکن صوبائی اسمبلی جام اویس، ان کے بڑے بھائی اور رکن قومی اسمبلی عبدالکریم، ان کے ملازموں اور محافظوں کو نامزد کیا تھا۔

قانون سازوں کے پانچ ملازموں سلیم سالار، محمد سومر، اسحاق جوکھیو، محمد جوکھیو اور دودا خان نے 22 اور 30 ​​نومبر 2021 کو گرفتاری سے بچنے کے لیے عبوری ضمانت حاصل کی تھی۔

جمعرات کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (ملیر) نوید احمد سومرو کے سامنے ان کی عبوری ضمانت کی توثیق کی درخواست کی گئی۔

جج نے فیصلہ دیا کہ ملزمان عدالت کے سامنے موجود ہیں اور ان کے ضمانتی مچلکے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور 22 اور 30 ​​نومبر 2021 سے قبل کے عبوری ضمانت کے احکامات کو مسترد کیا جاتا ہے۔

عینی شاہدین اور وکلا نے ڈان کو بتایا کہ پانچوں مشتبہ افرادکمرہ عدالت سے نکل گئے اور عبوری ضمانت مسترد ہونے کے بعد باآسانی فرار ہو گئے کیونکہ پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی: ملیر میں رکن صوبائی اسمبلی کے فارم ہاؤس سے لاش برآمد

ڈان سے بات کرتے ہوئے تفتیشی افسر انسپکٹر سراج لاشاری نے کہا کہ اس وقت ان مشتبہ افراد کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے شکایت کنندہ کی خواہش پر کسی کو حراست میں نہیں لیا جا سکتا۔

اپنے حکم میں جج نے مشاہدہ کیا کہ ریکارڈ پر دستیاب شواہد سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان کے اس عمل کا مقصد عوام میں عدم تحفظ اور خوف پیدا کرنا ہے، اسی لیے مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6 کی شق نمبر دو شامل کی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ ایک ایسی نوعیت کا ہے، جو دہشت گردی کے ذمرے میں آتا ہے اور اس لیے اس عدالت کے پاس فوری ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

ناظم جوکھیو کا قتل کیس

کراچی کے علاقے ملیر میں 3 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔

ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

مذکورہ ویڈیو میں مقتول نے بتایا تھا کہ اس نے تلورکا شکار کرنے والے چند افراد کی ویڈیو اپنے موبائل فون پر بنائی تھی جس کی وجہ سے اس کا فون چھین لیا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا تھا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان کا فون واپس کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی۔

تاہم فون کرنے کے باوجود بھی جب پولیس مدد کے لیے نہیں پہنچی اور شکار کرنے والے واپس چلے گئے تو وہ تشدد کی شکایت درج کرانے کے لیے مقامی تھانے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ

مقتول نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون آئے اور کہا گیا کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا اگر انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہ لوگ ہوں گے جن افراد کے گھر ’شکاری مہمان‘ ٹھہرے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق

مقتول ناظم جوکھیو کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر محمد اریب نے کیا تھا جس میں انکشاف ہوا کہ سر سمیت پورے جسم پر بے شمار زخم تھے۔

بدترین تشدد کے باعث مقتول کو اندرونی طور پر خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق لاش پر سخت اور نوکیلی چیزوں سے تشدد کیے جانے کے نشانات تھے جبکہ نازک عضو پر بھی بری طرح مارنے کے نشان تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے چہرے پر سرخ اور جامنی رنگ کے متعدد زخم تھے جب کہ آنکھیں گہرے زخموں کے ساتھ سوجی ہوئی تھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں