ناظم جوکھیو قتل کیس کی تفتیش کے لیے پولیس کی نئی ٹیم تشکیل

ناظم جوکھیو کے لواحقین نے پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز
ناظم جوکھیو کے لواحقین نے پولیس کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی پولیس نے ملیر میں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے رکن صوبائی اسمبلی کے فارم میں قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے کیس کی تفتیش کے لیے نئی ٹیم تشکیل دے دی۔

پولیس کی جانب سے نئی تفتیشی ٹیم مقتول کے لواحقین کی شکایت پر تشکیل دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل: لواحقین کی کیس انسداد دہشت گردی عدالت بھیجنے کی درخواست

مقتول ناظم جوکھیو کے لواحقین نے سٹی پولیس چیف اور ہوم سیکریٹری سے ملاقات میں ڈی آئی جی ایسٹ کی بنائی گئی تفتیشی ٹیم کی کارکردگی کے حوالے سے شکایت کی تھی۔

ڈی آئی جی کرائم اور انوسٹی گیشن عاصم خان کی جانب سے جاری حکم نامے کے مطابق ایڈیشنل آئی جی کراچی عمران یعقوب منہاس کی جانب سے نے 15 نومبر کو آگاہ کیا گیا کہ میمن گوٹھ میں قتل ہونے والے ناظم جوکھیو کے بھائی محمد افضل جوکھیو اپنے وکیل کے ساتھ ان کے سامنے پیش ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ افضل جوکھیو نے ‘ایک درخواست جمع کی اور کیس میں تفتیش کے حوالے سے پیش رفت پر عدم اطمینان کا اظہار کیا’۔

انہوں نے ‘نئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کی درخواست کی، جو افسران انسپکٹر سراج احمد لاشاری، ڈی ایس پی غلام علی جمانی اور تنویز عالم اوڈھی، ایس ایس پی اے آئی جی فنانس سی پی او کراچی پر مشتمل ہو’۔

یہ بھی پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پی پی پی رکن اسمبلی کے جسمانی ریمانڈ میں 3 روز کی توسیع

حکم نامے میں کہا گیا کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی کے تشکیل کردرہ بورڈ کی تجاویز اور پولیس قانون کی متعلقہ دفعاتکے تحت کیس کی تفتیش کی تبدیلی کی منظوری دی گئی ہے۔

حیدرآباد رینج کے انسپکٹر سراج لاشاری کو سکھر رینج کے ڈی ایس پی غلام علی جمانی کی سربراہی میں کیس کی تفتیش کی ہدایت کی گئی ہے اور مجموعی طور پر سربراہی سی او پی کراچی میں اے آئی جی فنانس تنویر عالم اوڈھو کی سربراہی میں تفتیش ہوگی جو کیس کی میرٹ پر تفتیش کو یقینی بنائیں گے۔

جاگیر داری

کراچی پریس کلب میں سرداری نظام کے منفی اثرات کے عنوان سے ایک پروگرام میں درخواست گزار افضل جوکھیو کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے خاندان سرداروں کے ہاتھوں مشکلات کا شکار رہے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ وہ جوکھیو سرداروں کے قریب رہے ہیں اور عملی طور پر غلام تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے چھوٹے بھائی ناظم جوکھیو نے اس جاگیردار سے نکلنے اور ان کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کے لیے سبق پڑھایا تھا، میں اور میرا خاندان ان مظالم کا شکار رہا ہے۔

مزید پڑھیں: ناظم جوکھیو قتل کیس: پیپلزپارٹی کے ایک اور رکن اسمبلی مقدمےمیں نامزد

افضل جوکھیو نے کہا کہ ہم غریب خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور کراچی کے مضامات میں ایک گاؤں میں رہتے ہیں لیکن جاگیرداروں سے مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔

ناظم جوکھیو قتل کیس میں رضاکارانہ مدد کرنے کے وکیل محمد خان شیخ نے کہا کہ پولیس جان بوجھ کر کیس خراب کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں بااثر افراد سے دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن اس طرح کی دھمکیاں انہیں انصاف کے راستے سے نہیں ہٹا سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت میں درخواست دی گئی ہے کہ جوکھیو قتل کیس انسداد دہشت گردی عدالت میں منتقل کیا جائے کیونکہ وہ اس کو دہشت گردی کا واقعہ قرار دیتے ہیں اور اس کا مقصد گاؤں والوں میں خوف و ہراس پھیلانا تھا۔

ناظم جوکھیو کا قتل

کراچی کے علاقے ملیر میں 3 اکتوبر کو پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس سے ایک شخص کی لاش ملی تھی، جسے مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کیا گیا تھا۔

میمن گوٹھ کے اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) خالد عباسی نے بتایا تھا کہ ناظم سجاول جوکھیو کی تشدد زدہ لاش جام ہاؤس نامی فارم ہاؤس سے بدھ کی دوپہر ڈھائی بجے ملی جو ملیر کے جام گوٹھ میں پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس کا فارم ہاؤس ہے۔

ایس ایچ او نے مزید کہا تھا کہ پولیس نے مقدمے میں ملوث ہونے کے شبہے میں دو افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔

مزید پڑھیں: کراچی: رکن اسمبلی کے فارم ہاؤس میں مبینہ قتل، لواحقین کا دوسرے روز بھی احتجاج

مقتول کے بھائی اور کراچی کے علاقے گھگر پھاٹک کے سابق کونسلر افضل جوکھیو نے پیپلز پارٹی کے رکن صوبائی اسمبلی جام اویس اور رکن قومی اسمبلی جام عبدالکریم پر اپنے بھائی کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔

ان سمیت دیگر رشتے داروں نے یہ الزام ایک ویڈیو کی بنیاد پر لگایا تھا جو ان کے بقول ناظم نے ریکارڈ کی تھی، مذکورہ ویڈیو میں ناظم نے بتایا تھا کہ انہوں نے نے ٹھٹہ کے جنگشاہی قصبے کے قریب اپنے گاؤں میں تلور کا شکار کرنے والے کچھ بااثر افراد کے مہمانوں کی ویڈیو بنائی تھی جس پر انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ دھمکیاں بھی دی گئی تھیں۔

مذکورہ ویڈیو میں مقتول نے بتایا تھا کہ اس نے تلورکا شکار کرنے والے چند افراد کی ویڈیو اپنے موبائل فون پر بنائی تھی جس کی وجہ سے اس کا فون چھین لیا گیا اور مارا پیٹا بھی گیا تھا، انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ ان کا فون واپس کر دیا گیا تھا جس کے بعد انہوں نے پولیس کی ہیلپ لائن پر کال کی تھی۔

تاہم فون کرنے کے باوجود بھی جب پولیس مدد کے لیے نہیں پہنچی اور شکار کرنے والے واپس چلے گئے تو وہ تشدد کی شکایت درج کرانے کے لیے مقامی تھانے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: جوکھیو قتل کیس: گورنر سندھ کا ’وفاقی جے آئی ٹی‘ تشکیل دینے کا عندیہ

مقتول نے ویڈیو میں بتایا تھا کہ انہیں دھمکی آمیز فون آئے اور کہا گیا کہ وہ ویڈیو ڈیلیٹ کردیں یا پھر سنگین نتائج کے لیے تیار رہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا تھا اگر انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچا تو اس کے ذمے دار وہ لوگ ہوں گے جن افراد کے گھر ’شکاری مہمان‘ ٹھہرے تھے۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بدترین تشدد کی تصدیق

مقتول ناظم جوکھیو کا پوسٹ مارٹم ڈاکٹر محمد اریب نے کیا تھا جس میں انکشاف ہوا کہ سر سمیت پورے جسم پر بے شمار زخم تھے۔

بدترین تشدد کے باعث مقتول کو اندرونی طور پر خون کا رساؤ شروع ہوگیا تھا۔

رپورٹ کے مطابق لاش پر سخت اور نوکیلی چیزوں سے تشدد کیے جانے کے نشانات تھے جبکہ نازک عضو پر بھی بری طرح مارنے کے نشان تھے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پورے چہرے پر سرخ اور جامنی رنگ کے متعدد زخم تھے جب کہ آنکھیں گہرے زخموں کے ساتھ سوجی ہوئی تھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں