اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بنیچ نے ڈاکٹر طارق جاوید بنوری کو چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے عہدے پر بحال کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر طارق بنوری کو 2018 میں چار سالہ مدت پر ایچ ای سی کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا اور وفاقی حکومت کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق انہیں رواں سال مئی میں ریٹائر ہونا تھا۔

تاہم ڈاکٹر طارق بنوری کو مارچ 2021 میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ایچ ای سی آرڈیننس 2002 میں ترمیم کی بنیاد پر عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا جس میں چیئرمین کے عہدے کی مدت چار سال سے کم کر کے دو سال کر دی گئی تھی۔

فیصلہ سنانے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ میں چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس عامر فاروق شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹر طارق بنوری کو ہٹانے کے بعد چیئرمین ایچ ای سی کیلئے 3 نام تجویز

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ پٹیشن کو اجازت دی جاتی ہے جس کی وجوہات بعد میں بتائی جائیں گی۔

اس کے نتیجے میں 26 مارچ 2021 اور 5 اپریل 2021 کے نوٹیفکیشنز کو قانونی اختیار کے بغیر اور ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس، 2002 کی ترمیم شدہ شقوں کے خلاف قرار دیا گیا۔

درخواست مشرف زیدی اور دیگر کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی تھی جس پر عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ 'لہٰذا فریق نمبر 6 ڈاکٹر طارق جاوید بنوری ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین کے طور پر بحال ہو گئے ہیں'۔

بحالی کے بعد ڈاکٹر طارق بنوری کی وفاقی حکومت اور اس کے مقرر کردہ رکن ایچ ای سی ڈاکٹر عطاالرحمٰن کے درمیان سرد جنگ کا امکان ہے، جو کمیشن کے سابق چیئرمین بھی ہیں اور اس وقت وزیراعظم کی سائنس اور ٹیکنالوجی ٹاسک فورس کے سربراہ ہیں۔ گزشتہ برس ڈاکٹر طارق بنوری نے ڈاکٹر عطا الرحٰمن اور وفاقی حکومت پر سنگین الزامات لگائے تھے جو مناسب تحقیقات کے متقاضی تھے، ان کی برطرفی کے بعد، ان کی شروع کی گئیں متعدد پالیسیوں کو کمیشن نے تبدیل کر دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کو عہدے سے ہٹا دیا گیا

ان کی بحالی کے بعد ڈان نے ایچ ای سی اور وفاقی وزارت تعلیم کے کئی افسران سے بات کی جنہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے معاملے کو غلط طریقے سے سنبھالنا ایچ ای سی میں ایک نئے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔

ڈاکٹر طارق بنوری کے الزامات

اطلاعات تھیں کہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن ان کی جگہ لیں گے، تاہم جب ڈاکٹر طارق بنوری نے اپنی برطرفی کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تو عدالت نے اگرچہ انہیں بحال نہیں کیا لیکن حکومت کو نئے چیئرمین کی تقرری سے روک دیا تھا۔

چنانچہ حکومت نے تین دیگر ارکان کے تقرر کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عطا الرحمٰن کو بھی کمیشن کا رکن مقرر کردیا تھا۔

اپنی برطرفی کے بعد ڈاکٹر طارق بنوری نے یوٹیوب چینل پر ایک انٹرویو میں الزام لگایا تھا کہ بظاہر ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیر نگرانی ایچ ای سی کے فنڈ سے چلنے والے تین تحقیقی مراکز کا احتساب شروع کرنے پر انہیں ہٹایا گیا تھا۔

انہوں نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ان مراکز کو سالانہ تقریباً ایک ارب روپے کی فنڈنگ ملتی تھی لیکن ان کے نتائج تسلی بخش نہیں تھے اور جب انہوں نے ان مراکز کا احتساب کیا تو انہیں وفاقی حکومت نے ایسا نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ کا ملک بھر میں نجی جامعات کے غیر قانونی کیمپس بند کرانے کا حکم

ڈاکٹر طارق بنوری نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ ڈاکٹر عطاالرحمٰن کے تحت 'نام نہاد نالج اکانومی' پراجیکٹ پر ان کے اعتراضات، جس کے لیے 30 ارب روپے کی فنڈنگ درکار تھی، بھی حکومت کو ٹھیک نہیں لگے۔

ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ یونیورسٹیوں میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ شروع کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، تاہم ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے ان الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور وزارت کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طارق بنوری کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع ہے کہ حکومت اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرے گی۔

اس کے علاوہ ابھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کیا ڈاکٹر طارق بنوری کی مدت ملازمت 2018 کے نوٹیفکیشن کے مطابق اس سال مئی میں ختم ہو جائے گی یا عدالت انہیں اپنے تفصیلی فیصلے میں توسیع دے گی کیونکہ انہیں 10 ماہ بعد بحال کیا گیا ہے۔

اگر حکومت اس فیصلے کو چیلنج نہیں کرتی ہے تو کمیشن کے تین نئے ارکان کی قانونی حیثیت پر بھی سوالیہ نشان لگ سکتا ہے جنہیں آرڈیننس میں نئی ترامیم کی بنیاد پر تعینات کیا گیا تھا۔

حکام نے بتایا کہ ڈاکٹر طارق بنوری کی دو اہم پالیسیاں پی ایچ ڈی اور انڈر گریجویٹ پروگرامز پر کمیشن نے مؤخر کر کے ان پر عمل درآمد روک دیا گیا تھا اور ان کی غیر موجودگی میں ایچ ای سی کے افسران کی تعداد بڑھانے کے لیے سیلیکشن بورڈ کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔

دوسری جانب وفاقی حکومت گزشتہ کئی سالوں سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر (ای ڈی آف ایچ ای سی) کی تعیناتی میں ناکام ہے، ای ڈی ریگولیٹری باڈی کا پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر ہوتا ہے جس کا سالانہ بجٹ 100 ارب روپے سے زیادہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں